بریگزٹ برطانوی تاریخ کا ایک اہم مرحلہ ہے۔ یورپی یونین کے بعد برطانیہ، امریکہ سے بھی تجارتی معاہدے کرنے میں آزاد ہوگا، جس کے بعد دونوں حلیف ممالک کے درمیان تجارتی معاہدوں سے عالمی معیشت پر بھی اثرات رونما ہونے کے امکانات موجود ہیں۔
صدر ٹرمپ اُس وقت امریکی صدر دوبارہ منتخب ہوں گے یا نہیں، یہ تو نومبر کے صدارتی انتخابات کے بعد ہی سامنے آئے گا، تاہم اِس وقت امریکی صدارتی دوڑ کے پرائمری انتخابات میں بائیں بازو کے امیدواروں سے بیشتر صدارتی امیدوار پریشان نظر آرہے ہیں۔
عالمی تجزیہ نگاروں کے مطابق امریکہ میں صدارتی انتخابات کے لیے پرائمریز کے شروع میں ہی ’’برنی سینڈرز‘‘ اور ’’الیزابتھ وارن‘‘ جیسے بائیں بازو کی جانب جھکاؤ رکھنے والے امیدوار سبقت لیے ہوئے ہیں۔ کچھ سرمایہ کار گھبرائے ہوئے ہیں، اور مبہم پیشینگوئیاں کر رہے ہیں۔
امریکی صدارتی انتخابات کی ممکنہ امیدوار ’’الزبتھ وارن‘‘ سے سرمایہ کار کو یہ خوف کھا لاحق ہے کہ وہ نومبر میں امریکی صدارتی انتخابات جیت سکتی ہیں۔
امریکی صدر کی پالیسیوں کی وجہ سے کئی ممالک خانہ جنگی اور پراکسی وار میں الجھے ہوئے ہیں۔ امریکی بلاک کے اثر سے نکلنے کے لیے ایک ایسا معاشی اور عسکری اتحاد بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے، جو امریکی اثر رسوخ اور دباؤ سے آزاد ہو۔
امریکی صدر کی پالیسیوں کی وجہ سے کئی ممالک خانہ جنگی اور پراکسی وار میں الجھے ہوئے ہیں۔ امریکی بلاک کے اثر سے نکلنے کے لیے ایک ایسا معاشی اور عسکری اتحاد بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے، جو امریکی اثر رسوخ اور دباؤ سے آزاد ہو۔
امریکہ اپنے معاشی نظام کے لیے سوشلزم کو اب بھی خطرہ سمجھتا ہے، اور سرمایہ داری نظام کے حامیوں کی وجہ سے امریکہ کی پالیسیاں ترقی پزیر ممالک کے داخلی معاملات پر بھی اثر انداز ہو رہی ہیں۔
اس وقت واحد سپر پاور ہونے کے زعم میں امریکی صدر کا رویہ آمرانہ قرار دیا جاسکتا ہے، جو کسی بھی ملک پر اپنی پالیسی حاوی رکھنے کی سوچ رکھتا ہو۔
ترقی پزیر ممالک سرمایہ داری نظام میں امریکی اجارہ داری سے نکلنے کی کوشش کر رہے ہیں، تاہم امریکی سرمایہ داری نظام ان کی کوششوں میں رکاؤٹ پیدا کر رہا ہے۔
دوسری طرف ترکی کے صدر طیب اردوگان آئندہ ہفتے پاکستان کا دورہ کر رہے ہیں، جس کا مرکزی نکتہ دونوں ممالک کے درمیان رشتوں اور تعلقات کو مزید قریب لانا ہے، تو اُدھر ملائیشیا، ترکی وِژن کے مطابق پاکستان کے تاجروں کو صدر طیب اردوگان کے دورے سے فائدے اٹھانے کی رغبت بھی دی جارہی ہے۔ ترکی نیٹو ممالک میں امریکی بلاک کا حصہ ہے، تاہم کرد ملیشیا اور روس سے دفاعی میزائل پروگرام کی خریداری اور امریکہ کی جانب سے ایف 17 طیاروں کی فراہمی اور تربیتی پروگرام کو روکنے کے بعد دونوں ممالک کے درمیان سرد مہری اور کشیدگی میں اضافہ ہو رہا ہے۔
ترکی، لیبیا اور شام میں امریکی مداخلت کی وجہ سے مشرقِ وسطیٰ کی جنگ میں الجھتا جارہا ہے، تاہم اس کے باوجود ترکی کے ساتھ تجارتی تعلقات اہمیت کے حامل ہیں۔
امریکہ میں صدر ٹرمپ کی جماعت کے خلاف ڈیمو کرٹیس کا معاشی اصلاحات کا ایجنڈا، امریکہ کی سمت تبدیل کرسکتا ہے۔ امریکی عوام مسلسل جنگ اور معاشی گراؤٹ کی وجہ سے تنگ آچکے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ بے روزگاری میں کمی اور ملازمتوں میں اضافہ ہو، ان کے سماجی مسائل حل ہوں، دنیا میں انہیں، امریکی پالیسیوں کی وجہ سے خطرات کا سامنا نہ ہو۔
اس طرح صدر ٹرمپ کی پالیسیوں نے امریکی عوام میں عدم تحفظ کو فروغ دیا ہے۔ تشدد اور نسل پرستی کے رجحان میں اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔ سماجی طبقاتی تفریق کی وجہ سے امریکی عوام، موجودہ پالیسیوں سے مطمئن نظر نہیں آ رہے۔ دیکھنا یہ ہوگا کہ امریکہ کا سافٹ امیج بحال کرنے اور عوام میں مسائل کی کمی کے لیے ٹرمپ انتظامیہ اپنے رویوں کو تبدیل کرتی ہے، یا نہیں۔
امریکی صدر نے عالمی سیاسی منظر نامے میں تشویش ناک تبدیلیاں کی ہیں، جس کی وجہ سے جہا ں ایک جانب امریکہ کی مخالفت میں اضافہ ہورہا ہے، تو دوسری جانب حلیف ممالک بھی امریکی پالیسیوں سے اختلاف کرنے لگے ہیں۔ صدرٹرمپ کی پالیسیوں سے عالمی رائے عامہ بُری طرح متاثر ہوئی ہے، تاہم امید کی جا رہی ہے کہ امریکی عوام نومبر کے صدارتی انتخابات میں ایسی معتدل قیادت کے حق میں ووٹ دینا چاہیں، جو انہیں تشدد اور خوف کے سائے سے نجات دلانے کے ساتھ ان کے سماجی مسائل کو ’’ٹوئٹر‘‘ پر نہیں بلکہ زمینی حقائق کے مطابق حل کرانے کی صلاحیت رکھتا ہو۔
اس میں بھی کوئی دو رائے نہیں کہ صدر ٹرمپ کی سخت گیر پالیسیوں کی حامی بھی بڑی تعداد میں موجود ہیں، لیکن عمومی جائزے میں صدر ٹرمپ کو امریکہ جیسی طاقتور مملکت کے لیے مناسب نہیں سمجھا جاتا۔
صدر ٹرمپ کو ڈیمو کرٹیس کے ساتھ سوچ تبدیل کرنے والے عوام اور سب سے بڑھ کر میڈیا کا سامنا کرنا ہوگا، جو صدر ٹرمپ کے خلاف سخت لائحہ عمل پر عمل پیرا ہیں۔
سی این این کے ایک پروگرام میں اینکر پرسن نے جس طرح اسپیکر نینسی پلوسی کی طرح صدارتی تقریر کے مسودے کو پھاڑا اور براہِ راست نشریات میں دکھایا، اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ صدر ٹرمپ کو مزید چار سال مقابلے کے لیے سخت ترین حریفوں کا سامنا ہے۔
صدر ٹرمپ کی کامیابی یا ناکامی بھی عالمی سیاسی و عسکری منظر نامے کو تبدیل کرنے میں اہم کردار ادا کرے گی۔ روس، چین، ترکی، جرمنی، جنوبی کوریا اور وینزیلا سمیت کئی اہم ممالک کے ساتھ امریکی تعلقات کا دار و مدار صدارتی انتخابات کے نتائج پر ہے، جہاں سرمایہ دارنظام کے حامی اور مخالفین کے درمیان سخت مقابلہ متوقع ہے۔
……………………………………..
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔