حال ہی میں تصاویر سے مزین ایک تحریر نظر سے گزری جس نے مجھے کافی حیران کیا۔ اس تحریر میں شامل ایک تصویر کے نیچے تھوڑی سی تفصیل دی گئی تھی جس میں تقریباً 25 بھیڑیے ایک قِطار میں نقلِ مکانی کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ تصویر کے نیچے درج شدہ تفصیل کے مطابق ریوڑ میں سب سے آگے 3 بھیڑیے عمر رسیدہ اور بیمار ہیں۔ ان کے پیچھے چلنے والے 5 جوان، ہر لحاظ سے تندرست اور پورے ریوڑ کی حفاظت کرنے پر مامور ہیں۔ درمیان میں تقریباً 11 بھیڑیے ریوڑ کے نوجوان یا قدرے سست ممبران ہیں۔ پھر ان کے پیچھے ریوڑ کا حصہ کہلانے والے 5 مزید بھیڑیے آگے چلنے والوں کی طرح جوان، ہر لحاظ سے تندرست اور ریوڑ کی پیچھے سے حفاظت کر رہے ہیں۔
اس تصویر میں سب سے عجیب لگنے والی بات وہ ایک بھیڑیا ہے، جو سب سے پیچھے خراماں خراماں چلتا دکھائی دیتا ہے۔ اُسے ’’ایلفا‘‘ (The Alpha) کہتے ہیں، اور وہی لیڈر ہے۔ پیچھے سے ریوڑ کو ہدایات دینے اور راستہ دکھانے کے ساتھ کسی جانور کے شکار، آرام کرنے اور دوبارہ سفر شروع کرنے سے متعلق تمام فیصلے ’’ایلفا‘‘ تنِ تنہا اٹھاتا ہے۔
اب آتے ہیں اصل کہانی کی طرف۔ آپ کو اکثر دسمبر اور جنوری کے مہینے میں سامنے آنے والی خبروں میں یہ سننے کو ملتا ہوگا کہ کالام، مری، کاغان اور ناران میں درجۂ حرارت نقطہ انجماد سے گِر گیا۔ سوات کی خوبصورت وادی ’’کالام‘‘ کے بارے میں بھی یہ بات مشہور ہے کہ وہاں دسمبر، جنوری اور فروری کے آخر تک اکثر رات کے وقت پانی پائپ کے اندر جم جاتا ہے۔
اب کی بار سوات کے خوبصورت ترین سیاحتی مقام گبین جبہ میں سنو ہائیک کا پروگرام بنا، تو مجھے خود منفی 8 درجہ سینٹی گریڈ میں برف کا سینہ چیر کر راستہ بنانے اور ٹاپ تک ہائیک کرنے کا تجربہ حاصل ہوا۔ رگوں میں خون جمانے والی سردی، چاروں اَور برف، جسم میں سوئیاں چبھونے والی سرد ہوائیں اور پھر رائیڈنگ، اس پورے تجربے کو الفاظ میں بیان کرنا شاید ممکن ہی نہیں ہے۔
تمہید میں بیان کی گئی کہانی کا مقصد صرف اور صرف یہ ہے کہ جب آپ 4 ساڑھے 4 فٹ کی برف کا سینہ چیر کر آگے جانے کی کوشش کر رہے ہوں، تو آپ کو ایک ’’ایلفا‘‘ کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہاں ایلفا سے میری مراد بھیڑیا بالکل نہیں، بلکہ وہ لیڈر ہے جو مضبوط اعصاب کا مالک ہو، جو رگوں میں خون جمانے والی سردی اور سوئیاں چبھونے والی ہواؤں میں راستہ نکالنے کی طاقت رکھتا ہو۔ ہمارے گروپ میں یہ طاقت 10ویں جماعت کے طالب علم 18 سالہ نوجوان کمیل احمد میں تھی، جس نے ٹھٹھرتی سردی میں مسلسل 5 گھنٹے برف کا سینہ چیرتے ہوئے آگے راستہ بنایا۔
یہاں یہ بات بتانی بھی ضروری ہے کہ ہم نے اپنے طور پر ’’ایلفا‘‘ کی پوزیشن تبدیل کی اور اسے پیچھے سے لاکر سب سے آگے کھڑا کیا۔ کیوں کہ وہ راستوں سے آشنا بھی تھا، اور برف کو ہٹانے میں بھی ماہر تھا۔
وادئی سوات کو قدرت نے ہزاروں سال پرانی تاریخ کے ساتھ بے پناہ فطری خوبصورتی سے بھی نوازا ہے، جس کی ہمیں بالکل بھی قدر نہیں۔ یہ وادی پوری کی پوری ہائیکنگ اور ٹریکنگ کے لیے موزوں ترین وادی ہے۔ یہاں درجنوں جھیلوں کے ساتھ ساتھ سیکڑوں خوبصورت آبشاریں بھی موجود ہیں۔ فلک سیر، مانکیال، میاں گل چوٹی، سپین سر، جوگیانو سر اور دوہ سرو کے علاوہ درجنوں چھوٹی بڑی چوٹیاں موجود ہیں، جن پر موسمِ سرما میں خوب برف باری ہوتی ہے۔ ایسے میں مذکورہ چوٹیاں سنو ہائیکنگ کے لیے ایک اچھی جگہ ثابت ہوتی ہیں۔
ماہِ جنوری کے وسط میں فلک سیر ٹریکنگ کلب، سوات (دی ینگسٹ ٹریکنگ کلب آف پاکستان) کے ساتھ سوات کے گبین جبہ ٹاپ تک سنو ہائیکنگ کا پروگرام بنا۔ اس کلب میں تیسری سے 12ویں جماعت تک کے طالب علم شامل ہیں۔ بلاشبہ گبین جبہ ہائیکنگ اور ٹریکنگ کے لیے پاکستان کے بہترین مقامات میں سے ایک ہے، اور اس کی کئی وجوہات بھی ہیں۔
٭ پہلی وجہ:۔ یہ سوات کے مرکزی شہر مینگورہ سے محض 65 کلومیٹر کے فاصلہ پر واقع ہے، جہاں تک کسی بھی عام گاڑی میں لالکو اڈے تک باآسانی پہنچا جاسکتا ہے۔ سڑک کا تعمیراتی کام اگرچہ ابھی جاری ہے، لیکن چوں کہ تقریباً 90 فیصد کام مکمل ہوچکا ہے، اس لیے سفر آرام دہ ہوتا ہے۔
٭ دوسری وجہ:۔ گبین جبہ میں پاکستان تحریکِ انصاف کی موجودہ صوبائی حکومت نے کیمپنگ پاڈز تعمیر کیے ہیں، جن کی وجہ سے سیاحوں کو رات گزارنے میں بھی کسی مشکل کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔
٭ تیسری وجہ:۔ گبین جبہ ٹاپ تک پہنچنے کے لیے 2 راستے ہیں۔ ایک جیپ ایبل ٹریک ہے جب کہ دوسرا راستہ جنگل کے بیچوں بیچ ٹاپ تک رسائی دلاتا ہے۔
ان وجوہات کو سامنے رکھتے ہوئے پروگرام بنایا گیا کہ کیوں نہ نارمل ہائیکنگ اور ٹریکنگ کے بعد تھوڑی چیلنجنگ ہائیکنگ کی جائے، یعنی ’سنو ہائیکنگ‘ آزمائی جائے۔
ہائیکنگ اور ٹریکنگ کا تجربہ رکھنے والے بخوبی جانتے ہیں کہ نارمل ہائیک اور سنو ہائیک میں زمین آسمان کا فرق ہوتا ہے۔ یہ فرق آسانی سے سمجھانے کے لیے اتنا جان لینا ہی کافی ہے کہ لالکو اڈّے سے گبین جبہ ٹاپ تک عام روٹین (مارچ تا ستمبر) میں ڈیڑھ 2 گھنٹے ہائیکنگ کے بعد رسائی حاصل کی جاسکتی ہے، جب کہ دسمبر یا جنوری کے مہینے میں جب وادئی گبین جبہ برف سے اٹی پڑی رہتی ہے، اس وقت یہ فاصلہ ساڑھے 4 سے 5 گھنٹوں میں طے کیا جاتا ہے۔
اس طرح عام ہائیکنگ کے لیے عام جوگر شوز، ہائیکنگ اسٹک، عام ٹریک سوٹ درکار ہوتے ہیں، جب کہ سنو ہائیک کے لیے ربڑ کے لانگ شوز، ہائیکنگ اسٹک، اونی ٹوپی، مفلر، دستانے، واٹر پروف ٹریک سوٹ، پانی کی بوتل وغیرہ کی بھی ضرورت پڑتی ہے۔
ہمارے گروپ نے 18 جنوری 2020ء کو صبح 10 بجے لالکو اڈّے سے اپنے سفر کا آغاز کیا اور تقریباً ساڑھے 4 گھنٹے کی صبر آزما مسافت طے کرنے کے بعد ٹاپ تک پہنچا۔
سنو ہائیک میں سب سے کٹھن کام برف کا سینہ چیر کر اس میں راستہ نکالنا ہوتا ہے۔ ایسے میں 3 سے 4 ممبران گروپ کی رہنمائی کیا کرتے ہیں، جو ہر 10 یا 15 منٹ کے بعد باری باری لیڈنگ پوزیشن پر جاکر پاؤں کی مدد سے برف میں راستہ بناتے جاتے ہیں۔ باقی ماندہ ممبرز لیڈر کے نقشِ قدم پر چل کر قدرے سہولت کے ساتھ مسافت طے کرتے ہیں۔ ٹاپ تک یہ عمل ہائیکرز کے صبر کا بھرپور امتحان لیتا ہے۔گبین جبہ ٹاپ پر 18 جنوری کو پہنچتے ہی عصر کا وقت ہوا چاہتا تھا۔ ہمیں یہ تو اندازہ تھا کہ اس وقت درجۂ حرارت نقطۂ انجماد سے نیچے ہے ، مگر گروپ کے ایک ممبر نے یہ کہہ کر ہمارے رونگٹے کھڑے کردیے تھے کہ اس وقت درجۂ حرارت منفی 8 ڈگری سنٹی گریڈ تک گِر چکا ہے۔ ٹاپ پر پہنچتے ہی خوشی سے تمام ممبران اچھلنے کودنے لگے۔ واپسی کا سفر نسبتاً آسان تھا کہ برف میں راستہ بنا ہوا تھا۔
سوات میں ’’سنو ہائیکنگ‘‘ کا رجحان بہت ہی کم پایا جاتا ہے۔ ایسے میں اسکول اور کالج کے طالب علموں کا ہائیکنگ پروگرام بنانا اور پھر سوشل میڈیا کے ذریعے اپنی سرگرمی کی تشہیر کرنا واقعی حوصلہ افزا بات ہے۔ یہ پب جی، ویڈیو گیم اور سوشل میڈیا کے منفی اثرات کی شکار پاکستان کی نوجوان نسل کے لیے قابلِ تقلید عمل بھی ہے۔
…………………………………….
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔