نیب یا کسی بھی ادارے کے متعلق قانون میں تبدیلی کا درست طریقۂ کار تو یہی ہے کہ اسے پارلیمنٹ میں لے جایا جائے۔ اس پر بحث اور مشاورت کی جائے۔ حزبِ اختلاف کی طرف سے تجاویز سامنے آئیں، اور ان سے حاصل ہونے والی سفارشات کی روشنی میں ترمیمی بل پارلیمنٹ سے منظور کیا جائے، لیکن تحریکِ انصاف نے اس کی ضرورت محسوس نہ کرتے ہوئے نیب قوانین میں صدارتی آرڈیننس کے ذریعے ترمیم کر دی، اور صدرِ مملکت عارف علوی نے آرڈیننس پر دستخط بھی کیے۔
اس آرڈیننس کے مطابق
٭ ادارہ قومی احتساب بیورو (نیب) پچاس کروڑ سے زائد کی کرپشن پر کارروائی کر سکے گا۔
٭ محکمانہ نقائص پر سرکاری ملازم کے خلاف کارروائی نہیں ہوگی۔
٭ سرکاری ملازم کے خلاف تب کارروائی ہوگی جس کے خلاف نقائص سے فائدہ اُٹھانے کے شواہد موجود ہوں۔
٭ اثاثوں میں بے جا اضافہ پر اختیارت کے ناجائز استعمال کی کارروائی ہوسکے گی۔
٭ چیئرمین نیب اور افسران کے خلاف شکایات وفاقی حکومت سن سکے گی۔
٭ کسی منصوبے یا سرکاری افسر کے فیصلے کے خلاف نیب کاروائی نہیں کرسکے گا۔
٭ جائیداد یا اثاثے عدالتی حکم کے بغیر منجمد نہیں کیے جا سکیں گے۔
٭ تین ماہ میں تحقیقات نہ ہونے پر ملزم ضمانت کا حق دار ہوگا۔
٭ ٹیکس اور سٹاک ایکسچینج میں نیب کا دائرہ کار ختم اور نیب تحقیقات یا انکوائری کا علانیہ جاری نہیں کرسکے گا، اور جائیداد کی قیمت کا تعین ڈسٹرکٹ کلکٹر کر ے گا۔
اس طرح نیب کے پر کاٹ دیے گئے۔ اس میں زیر التوا مقدمات واپس انہی اداروں کو بھیج دیے جانے کے بعد یہ مقدمات ایک بار پھر "سرخ فیتے” کا شکار ہوکر قصۂ پارینہ بن جائیں گے۔
قارئین، حیرانی کی بات تو یہ ہے کہ تحریکِ انصاف کا جاری کیا گیا نیب صدارتی آرڈیننس آصف علی زرداری کے سابق وکیل کی غیر سرکاری مشاورت سے تیار کیا گیا ہے۔ ٹھیک اسی طرح کا نیب ترمیم بل اپوزیشن کے لیے آصف علی زداری کے موجودہ وکیل نے تیار کیا تھا۔ اس لیے تو بلاول زرداری نے اپنے ایک ٹویٹ پیغام میں کہا ہے کہ نیب قوانین میں ترامیم بل ان کی پارٹی کی جانب سے پیش کیا گیا تھا، اور حکومت نے ترمیم کرکے پیپلز پارٹی کے کو چیئرمین آصف علی زرداری کے مؤقف کی توثیق کی ہے۔
دوسری طرف 17 دسمبر 2019ء کو کراچی میں کاروباری طبقہ کے نمائندہ اجتماع سے خطاب میں وزیر اعظم عمران خان نے اعلان کیا تھا کہ نئے قانون کے تحت بزنس کمیونٹی کو نیب سے محفوظ کردیا گیا ہے۔ ان کا یہ اعلان کاروباری حضرات اور سرمایہ دار طبقہ سے زیادہ بدعنوان سیاست دانوں اور سیاست میں سرمایا کاری کرنے والوں کے لیے اطمینان کا باعث ہے۔ نیب قوانین میں ترمیم سے فیصلہ سازی کے منصب پر فائز سیاسی و غیر سیاسی کرداروں کو بدعنوانی کرنے کی کھلی چھوٹ دے دی گئی ہے کہ جو جی چاہے کیا کریں۔ ان سے کوئی پوچھ گچھ نہیں ہوگی۔
شق 9 کی ذیلی شق (اے) 6 میں کی گئی ترمیم میں اس وضاحتی جملے کا اضافہ کرتے ہوئے، اسے اختیارات کے غلط استعمال سے جوڑ دیا گیا ہے۔ معلوم نہیں اس غلط استعمال کو ثابت کرنے کے لیے طریقۂ کار کیا ہوگا؟ جس سے یہ ثابت ہوسکے کہ فُلاں عہدیدار یا فُلاں افسر نے اپنے اختیارات کا غلط استعمال کیا ہے۔
مذکورہ شق کے اس وضاحتی جملے کا فائدہ "آشیانہ ہاؤسنگ سکیم” میں بیورو کریٹ فواد حسن فواد، شہباز شریف، ایل این جی میں جاوید لطیف، شاہد خاقان عباسی، ناروال سپورٹس کمپلیکس میں مسلم لیگ نون کے احسن اقبال اور ان جیسے دیگر بدعنوان عناصر کو ہوگا۔
بعض لوگوں کا خیال ہے کہ حکومت نے اپنے کچھ بندوں کو بچانے کے لیے یہ ترمیمی آرڈیننس جاری کیا ہے۔ اگر ترمیم سے چند حکومتی ارکان اور حکمران جماعت کے دوستوں کو فائدہ ہوگا، تو حزبِ اختلاف کی اکثریت بھی اس بہتی گنگا میں آشنان فرمائے گی۔
دوسری طرف تحریکِ انصاف کا شروع سے سخت احتساب کا نعرہ اور وعدہ رہا ہے۔ لوگوں کو بھی امید تھی کہ تحریک انصاف اقتدار میں آنے کے بعد احتساب کے قوانین کو مزید سخت کرے گی۔ نیب حکام کے صوابدیدی اختیارات میں کمی لائے گی، اور "پلی بارگیننگ” کو ختم کیا جائے گا، جس کی وجہ سے اربوں روپے کی بدعنوانی کرنے والے لاکھوں روپے دے کر احتساب کے عمل سے گلوخلاصی کیا کرتے ہیں۔ ٹیکس چوری اور بدعنوانی ایک قومی جرم ہے اور مجرم کو جو بھی سزا دی جائے کم ہے، لیکن پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین اور وزیر اعظم پاکستان نے ایک اور "یوٹرن” لیتے ہوئے ٹیکس چوروں، قومی خزانہ لوٹنے والوں، ملکی وسائل ہڑپنے والوں، بدعنوان سرمایہ داروں، کارخانہ داروں، بدعنوان سیاسی عناصر اور کاروباری ٹیکس چور طبقہ کے سامنے گھٹنے ٹیکتے ہوئے مک مکا کر دیا ہے۔
قومی احتساب بیورو (نیب) کی ضرورت اس لیے محسوس کی گئی تھی کہ انسدادِ بدعنوانی کے لیے قائم کیے گئے دیگر اداروں کی کارگردگی تسلی بخش نہیں تھی، اور پاکستان کا نام دنیا کے بدعنوان ممالک میں شمار ہونے لگا تھا۔ وزیر اعظم عمران خان نیب قوانین میں تبدیلی کے جو بھی جواز اور دلیل پیش کرے گا، وہ قوم کے ساتھ مذاق ہی تصور کیا جائے گا۔قومیں ایسی ترقی نہیں کیا کرتیں، ترقی کے لیے سخت قوانین بنانا پڑتے ہیں، اور اس پر عمل درآمد کو یقینی بھی بنانا پڑتا ہے۔ اگر عمران خان ایسا نہیں کرتے، تو تحریک انصاف بھی ایک روایتی پارٹی کی طرح گمنامی کے اندھیروں میں گم ہوکر رہ جائے گی۔
ہم نیک و بد حضور کو سمجھائے دیتے ہیں
………………………………………..
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔