آدمی کے ساتھ کیا عجیب مجبوریاں لگی ہوئی ہیں۔ وہ ساری دنیا تو دیکھ سکتا ہے لیکن خود کو اس وقت تک نہیں دیکھ سکتا جب تک دوسرے لوگ اس سلسلے میں اس کی مدد نہ کریں۔ اسے آئینہ کی ضرورت ہے، جس کے سامنے کھڑے ہوکر اپنا سراپا دیکھ سکے۔ پھر آئینہ کی بھی مجبوریاں ہیں۔ کئی طرح کی رکاؤٹیں بیچ میں کھڑی رہتی ہیں۔ لباس کی تراش خراش، چہرہ کی تازگی وپژمردگی، ہیر اسٹائل تک تو آئینہ کی رسائی ہے، لیکن علاوہ ازیں جو اصل آدمی مبہم سرگوشیوں سے مطمئن نہیں ہوتا، وہ اپنے بارے میں مزید جاننا چاہتا ہے۔ اسی لیے اسے دوستوں سے آگہی حاصل ہوتی ہے۔ لیکن اتنا بھی کافی نہیں۔ وہ اپنی خرابیوں سے بھی آگاہ ہونا چاہتا ہے۔ اس لیے اسے دشمنوں کی ضرورت پڑتی ہے۔ اس لیے آدمی جانے انجانے کچھ نہ کچھ دشمنوں کو بھی پال لیتا ہے۔ یہ ایک پیچیدہ نفسیاتی مسئلہ ہے، جو کسی حد تک ہر آدمی کے ساتھ لاحق ہے۔ لیکن آئینہ، دوست، دشمن رکھنے کے باوجود آدمی کی شخصیت کا ایک بڑا حصہ پھر بھی ایک سر بستہ راز ہی رہتا ہے۔ جسے جاننے کے لیے وہ بے شمار روگ پال لیتا ہے۔ پڑھتا ہے، لکھتا ہے، دوڑتا ہے، رُکتا ہے، سوتا ہے، جاگتا ہے، ہر ہر طرح کے جتن کرتا ہے۔ سانس کا دامن تھامے رکھتا ہے۔ اس امید میں کہ جانے کب اور کس موڑ پر اپنے آپ سے ملاقات ہوجائے۔ جب زندگی اس سلسلہ میں اس کی مکمل تسلی نہیں کرپاتی، تو وہ مرجاتا ہے۔ شائد موت اس کا یہ مسئلہ حل کردے۔ موت اسے بتادیتی ہے: ’’اب تم سب کچھ دیکھ لوگے۔‘‘ خاک کی پہچان خاک ہوکر ہی ہوسکتی ہے۔
شائد اس لیے کئی روایات میں خود آگہی کو خدا شناسی کا زینہ کہا گیا ہے۔ جس نے خود کو جان لیا، اس نے سب کچھ جان لیا۔ لیکن زیادہ تر لوگ اتنے خوش نصیب نہیں ہوتے۔ وہ زندگی کی بھاگ دوڑ میں اتنے محو ہوجاتے ہیں کہ اس بھاگ دوڑ ہی کو سب کچھ سمجھنے لگتے ہیں اور یوں خود سے ملے بغیر آخری گاڑی میں بیٹھ جاتے ہیں۔
ایک لمحہ کے لیے بریک پر پاؤں جما دیجیے اور سوچیے کہ کیا آپ کی ملاقات خود سے ہوچکی ہے؟ کیا دنیا کے بارے میں اتنا سب کچھ جاننے کے باوجود یہ دعویٰ آپ کرسکتے ہیں کہ اب میں خود کو جان گیا ہوں؟ مجھے معلوم ہے میں کہاں جا رہا ہوں، اور کیوں جا رہا ہوں؟ تو پھر ٹھیک ہے۔ گاڑی کی رفتار مزید تیز کر دیجیے اور لوگوں کے اعتراضات کو ان کے منھ پر مار دیجیے، لیکن اگر ایسا نہیں ہے، اور زیادہ امکان اس بات کا ہے کہ ایسا نہیں ہوگا۔ تو پھر رُک جائیے۔ پہلے خود سے ملاقات کیجیے۔ دنیا سے تو ملنا جلنا رہے گا ہی۔ ’’ماؤنٹ ایورسٹ‘‘ اور ’’کے ٹو‘‘ سر کرنے کا کیا فائدہ؟ جب آدمی اس ٹیلہ کو سر نہ کرسکا ہو، جس پر کھڑے ہوکر وہ اپنی ذات کی سیر کرسکتا ہے۔ یہ جو ہم بے شمار حماقتیں کرتے پھرتے ہیں، جان بوجھ کر خود کو ضائع کرتے رہتے ہیں، چیختے ہیں، چلاتے ہیں، تیز تیز بولتے ہیں، خود سے خود کو چھپانے کی کوشش میں اپنا پتا پانی کر دیتے ہیں، بہادری کے کئی تمغے سینہ پر سجا لینے کے باوجود خود سے نظر ملانے کی ہمت نہیں کرپاتے، ہر کھائی میں گرتے ہیں اور پھر اس پر فخر کرتے ہیں۔ انہی ناکامیوں اور کمزوریوں کو چھپاتے ہیں، سب سے خود سے۔ لیکن کب تک، پول تو ایک دن کھلنا ہی ہے ،اور جب ایسا ہوگا، تو پھر پتا چلے گا کہ ساری زندگی ڈراما ہی کرتے رہے۔ یہ تو صرف اداکاری ہی تھی، اصل آدمی تو کچھ اور ہی ہوتا۔
وہ جو شاعری کرتا پھررہا تھا۔ شاعر نہیں تھا، بازیگر تھا۔ لفظوں سے کرتب دکھانے میں طاق ہوگیا تھا اور بس۔ وہ جو شہر کا مشہور ترین طبیب تھا، وہ دراصل ایک ڈاکو تھا، جس نے کمال مہارت سے خود کو اس خوب صورت نقاب کے پیچھے چھپا رکھا تھا۔ وہ جوحکمران تھا، وہ دراصل بہت ہی محکوم ذہنیت کا چھوٹا سا آدمی تھا، جسے پتا نہیں کس نے اٹھا کر تخت پر بٹھا دیا تھا۔ یہ ایک طویل فہرست ہے، جس میں آپ بھی کہیں موجود ہیں۔
یقین کرلیجیے، کیا آپ وہی نہیں جو نظر آتا ہے……یا……؟
……………………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔