جہانزیب کالج نہ صرف سوات بلکہ خیبر پختون خوا کے اہم تعلیمی اداروں میں سے ایک ہے۔ یہاں بڑی بڑی شخصیات نے تدریسی خدمات انجام دی ہیں، اور اس طرح اس ادارے سے فارغ التحصیل طلبہ نے بھی بڑے بڑے عہدے سنبھالے ہیں۔ یوں انہوں نے جہانزیب کالج کا نام ہر جگہ روشن بھی کیا ہے۔ جہانزیب کالج 1952ء میں بنا ہے، اور اس سے شائع ہونے والے ’’ایلم‘‘ رسالے نے علم و ادب کی بڑی خدمت کی ہے۔
سوات میں سب سے پہلے شائع ہو نے والا رسالہ ’’ایلم‘‘ ہی ہے۔ جب مَیں اپنا ایم فل کا مقالہ "Beginning and Evolution of Pashto Literature in Swat State: 1915-1969” لکھ رہا تھا، تو اسی دوران میں مجھے ’’ایلم‘‘ کے حوالے سے معلومات کی ضرورت پڑی، اور خاص کر اس بات کی ضرورت زیادہ محسوس ہوئی کہ یہ رسالہ کب سے شروع ہوا ہے؟ رسالہ کی آغاز کی بات اس لیے اہم اور قابل تحقیق تھی کہ مختلف لوگوں نے اس کے آغاز کے بارے میں مختلف باتیں کہی تھیں۔
آفتاب احمد نے جہانزیب کالج پر ایم اے لیول کا ایک مقالہ لکھا ہے۔ اس نے رقم کیا ہے کہ یہ رسالہ 1956ء میں شروع ہوا ہے۔ محمد پرویش شاہین صاحب نے بھی لکھا ہے کہ اس کا پہلا شمارہ 1956ء میں شائع ہوا ہے۔ جہانزیب کالج کے ایک سابق پرنسپل حضرت رحیم صاحب نے اس کے شروع ہونے کی تاریخ 1958ء بتائی ہے۔ بعض نے اس کی پہلی اشاعت کی تاریخ 1949ء بھی بیان کی ہے، حالاں کہ اس وقت کالج بھی نہیں بنا تھا۔
اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے ایک دن میں جہانزیب کالج کی لائبریری چلا گیا۔ وہاں لائبریرین علی اکبر صاحب سے اس بارے میں بات ہوئی۔ اس نے نہ صرف مکمل تعاون کی یقین دہانی کرائی بلکہ بغیر کسی تاخیر کے اس نے مجھے ریکارڈ میں پڑے ہوئے رسائل دیکھنے کی اجازت بھی دی۔ جب لائبریری میں موجود پرانے شماروں کا جائزہ لیا، تو پتا چلا کہ 1971ء سے پہلے کا کوئی شمارہ لائبریری میں موجود ہی نہیں تھا۔ لائبریرین جناب علی اکبر صاحب نے مجھے مشورہ دیا کہ آپ اس سلسلے میں ’’ڈاکٹر سلطان روم صاحب‘‘ کے پاس جائیں، شاید وہ اس بارے میں آپ کی بہتر راہ نمائی کرسکیں۔ جب میں ڈاکٹر سلطان روم صاحب کے پاس گیا، اور انہیں اپنے مسئلے سے آگاہ کیا، تو انہوں نے کہا کہ جب پرانے شمارے موجود نہیں ہیں، تو ہمیں صحیح تاریخ کالج کے اکاؤنٹس فائلز سے مل سکتی ہے۔ جب ہم اس سلسلے میں کالج کے سپرنٹنڈنٹ صاحب سے ملے اور اس کو بتایا کہ کالج کی 1952ء تا 1960ء کی اکاونٹس فائلیں اور خاص کر ایلم رسالے کی مالیات کی فائلیں دیکھنی ہیں، تو اس نے کہا کہ پہلے یہ تو معلوم ہی نہیں کہ وہ فائلیں موجود ہیں بھی یا نہیں۔ اور اگر موجود ہوں بھی، تو شائد بوسیدہ ہوچکی ہوں۔ مگر ڈاکٹر صاحب نے اصرار کیا کہ جو بھی ہے، ہم دیکھنا چاہیں گے۔ آپ صرف ہمیں جگہ دکھائیں اور اجازت دیں۔ اس وقت مجھے پتا چلا کہ ریسرچ کتنا مشکل کام ہوتا ہے کہ ایک معمولی سا نکتہ معلوم کرنے کے لیے در در کی خاک چھاننا پڑتی ہے۔ بہرحال ریکارڈ انچارج نے کہا کہ آپ کل آئیے، ہم آپ کی ہر ممکن مدد کریں گے۔ کل وقتِ مقررہ پر مَیں اور ڈاکٹر سلطان روم صاحب متعلقہ شخص کے پاس چلے گئے۔ اس نے ایک نوکر کو چابی دے کر کمرہ کھولنے کا کہا۔ جب اس نے ریکارڈ کا کمرہ کھولا اور ہم نے دیکھ لیا کہ یہ ایک بڑا ہال تھا، جو کہ پرانے ریکارڈ سے بھرا ہوا تھا اور اس پر تقریباً چار پانچ انچ گرد بھی پڑی تھی۔ کیوں کہ ہال میں بلب وغیرہ نہیں تھا۔ اس لیے خاصا اندھیرا بھی تھا۔ اس طرح ریکارڈ روم میں ریسرچر کے علاوہ شائد ہی کسی کا کام پیش آتا ہو، اس لیے روشنی کا انتظام نہیں تھا۔ رجسٹر اور فائلیں الماریوں میں پڑی تھیں، مگر کسی خاص ترتیب سے نہیں، بلکہ یہ کہنا زیادہ بہتر ہوگا کہ تمام چیزیں منتشر اور انتہائی خستہ حالت میں پڑی تھیں۔ جب مَیں نے یہ صورت حال دیکھی، تو میرے تو جیسے اوسان خطا ہوگئے۔ کیوں کہ اپنا مطلوبہ ہدف پانے میں ہمیں چند ہفتے لگ سکتے تھے، لیکن ڈاکٹر صاحب نے آستینیں چڑھائیں اور کہا کہ ہم نے ہر قیمت پر ریکارڈ تلاشنا ہے۔ کیوں کہ تحقیق تو کوئی خالہ جی کے گھر جانا نہیں ہے۔ جب مَیں نے بھی اپنے منھ اور ناک کو گرد سے بچانے کے لیے ڈھانپنا شروع کیا، تو اس دوران میں جہانزیب کالج کے سیمینار لائبریری کا ایک اسسٹنٹ محمدعلی آیا، اور ڈاکٹر صاحب سے پوچھا کہ آپ اس گرد میں کیا کررہے ہیں؟ ڈاکٹر صاحب نے جب مدعا بیان کیا، تو انہوں نے کہا کہ کل تک آپ صبر کریں، میں آپ کو کل یہ معلومات دے دوں گا۔ کل جب ہم ان سے ملے، تو انہوں نے ہمیں ایلم کے ابتدائی سالوں کے چند شمارے تھما دیے اور یوں ہمارا ایک مشکل کام آسان کیا۔ اس نے یہ بھی کہا کہ یہ جہانزیب کالج کے ایک سابقہ پرنسپل نے جہانزیب کالج کے سیمینار لائبریری کے لیے عطیہ دے رکھا ہے، لیکن اس وقت کے لیے جب ہم نے رسالے دیکھ لیے اور پھر ان کو واپس کرنے کے بعد دوبارہ سنٹرل لائبریری کے لیے ان کی کاپیاں بنانے کی غرض سے طلب کیا، تو انہوں نے کہا کہ یہ اس کی ذاتی ملکیت ہے، اور اس بہانے سنٹرل لائبریری کو اس کی فوٹو کاپی نہیں ملی۔ ان شماروں میں سب سے پرانا شمارہ مئی 1959ء کا تھا۔ اس کے اوپر یہ معلومات درج تھیں: ’’جلد: دوم، شمارہ : دوم (مئی ۱۹۵۹)‘‘ تو اس سے معلوم ہوتا ہے کہ پہلا شمارہ 1958ء میں شائع ہوا تھا، جو کہ جہانزیب کالج کے ایک سابقہ پرنسپل حضرت رحیم صاحب نے بھی لکھا تھا۔
1958 ء تا 1966ء یہ ششماہی بنیاد پر یعنی سال میں دو دفعہ شائع ہو تا تھا، اور 1967ء کے بعد یہ سال میں ایک دفعہ شائع ہو تا رہا۔ اس کے پہلے ایڈیٹر سحر یوسف زئے تھے۔
ایک دلچسپ بات اس رسالے کے نام کے بارے میں ہے۔ ابتدائی چند سالوں کے شماروں پر اس کا نام ’’علم‘‘ (ILAM) لکھا گیا ہے اور بعد میں ’’ایلم‘‘ (Elum) ہے۔ لیکن جتنے بھی لوگوں نے اس کا ذکر کیا ہے تو ’’ایلم‘‘ کے حوالے سے کیا ہے، مگر ’’علم‘‘ نام کا ذکر کسی نے بھی نہیں کیا ہے۔ آج کل بھی یہ سالانہ بنیاد پر ’’ایلم‘‘ (Elum) کے نام سے ہی شائع ہوتا ہے۔ یاد رہے کہ ’’ایلم‘‘ سوات اور بونیر کے ایک پہاڑ کا نام ہے۔
ابتدائی سالوں کے چند اہم رسالوں کو میں نے دیکھ لیا، تو ان میں بہت اہم لوگوں کے ادبی، تاریخی اور معلوماتی مضامین وغیرہ شامل ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اس قسم کی اہم اور تاریخی دستاویزات، کتب اور رسائل کی حفاظت ہونی چاہیے۔ اس کے علاوہ آرکائیوز کا ریکارڈ بھی ایک خاص ترتیب سے محفوظ رکھنا چاہیے۔ اگر ممکن ہو، تو اس کی فہرستیں بنانی جائیں اور کمپیوٹر میں انہیں محفوظ کیا جائے۔ گردو غبار بھی کاغذ کو دیمک کی طرح کھاتا ہے، لہٰذا اس سے بھی ریکارڈ کی حفاظت کرنی چاہیے۔بعض لوگ یہ بھی کہیں گے کہ اس کے لیے زیادہ عملے کی ضرورت ہوگی۔ یہ بھی ٹھیک ہے لیکن اگر ہم بروقت تمام چیزیں ایک خاص سلیقے اور ترتیب سے رکھیں، تو پھر بھی بڑی حد تک آسانی پیدا ہو سکتی ہے۔

…………………………………………….

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔