بابائے سندرہ محترم غازی سیال صاحب آج ہم سے بچھڑ کر منوں مٹی تلے دب گئے ۔ آپ کی وفات کے الفاظ لکھتے ہوئے میرا قلم لرز رہا ہے۔
خاک میں کیا صورتیں ہونگیں کہ پنہاں ہوگئیں
جس طرح زمین پھولوں، سبزہ زاروں، لالہ زاروں سے خوبصورت ہے، جس طرح آسمان ٹمٹماتے تاروں سے خوبصورت ہے۔ اسی طرح انسانی بستیاں غازی سیال صاحب جیسے صاحبِ بصیرت اور باکردار لوگوں سے خوبصورت ہیں۔ غازی سیال صاحب کی وفات سے صرف ان کے بچے بچیاں یتیم نہیں ہوئیں، ان کی وفات سے ایک طرح سے ہمارا معاشرہ یتیم ہو گیا۔
چی سڑے مڑ شی کور پہ وران شی
پہ زنے خلقو باندے وران شی وطنونہ
محترم غازی سیال صاحب بنوں کے علاقے منڈان میں کوٹکہ اخوندان میں 1933ء کو پیدا ہوئے۔ آپ پشتو زبان کے عظیم شاعر، نثر نگار، افسانہ نگار اور دانشور تھے۔ سیال صاحب ایک درجن سے زائد کتابوں کے خالق تھے۔ مشہور کتابوں میں ’’ژوند او خکلا‘‘، ’’دَ سندری روح‘‘ ، ’’حرفونہ خبری کوی‘‘ا ور ’’زما سندری ستا دَ پارہ‘‘ شامل ہیں۔ کتابوں کے علاوہ بے شمار فلمی گانے اور کئی فلموں کی کہانیاں بھی لکھ چکے ہیں۔ آپ باقاعدہ طور پر کسی سکول یا مکتب سے نہیں پڑھے تھے، لیکن ایک عظیم انٹلیکچول تھے ۔ آپ کی شاعری اور افسانے ایم اے پشتو کے نصاب میں بھی شامل ہی۔ آپ کی شاعری تصنع اور بناوٹ سے پاک رواں شاعری تھی۔ آپ کی شاعری میں کلی وال روایات، ماحول اور خالص پختون کلچر کا عکس نمایاں تھا۔ آپ کی شاعری کا خاصا پشتو گیت (سندرہ) تھا۔ آپ نے بے شمار گیت لکھے جو کئی نامور گلوکاروں نے گائے ہیں۔ آپ کو شہرتِ دوام اپنے اُن گیتوں سے ملی جو گلنار بیگم نے گائے۔ گلنار بیگم کو آپ ہی بنوں لائے، اور یہاں ایک مقامی شخص سے ان کی شادی کروائی۔ گلنار بیگم اور غازی بابا دونوں ایک دوسرے کی شہرت کا سبب بنے۔ آپ کی خوبصورت شاعری اور گلنار بیگم کی مسحور کن آواز نے پشتو موسیقی کو ایک طرح سے امر کردیا۔ گلنار بیگم کا مشہورِ زمانہ گیت
ژوارے کرمی تہ نصیب راوڑی یمہ
جانانہ لاس راکہ چی دوانڑہ سرہ زونہ
مرحوم غازی سیال کا تخلیق کردہ ہے۔
پشتو ادب کی بے پناہ خدمت کے اعتراف میں حکومتِ پاکستان نے غازی سیال بابا کو 200 5ء میں صدارتی ایوارڈ سے نوازا۔ اس کے علاوہ آپ کو پشتو ادب کی خدمت پر کئی ایوارڈ مل چکے ہیں۔ 29 اپریل 2005ء میں ’’گرینڈ بنوں نائٹ‘‘ بمقام سوان پشاور میں اپنے خطاب میں فرمایا: ’’جب میرا نام ایوارڈ کے لیے پکارا گیا، تو لوگ مجھے دیکھ کر حیران رہ گئے کہ اتنا بڑا نام اور اس قدر سادگی! میرے کندھوں پر بنوں وال چادر تھی اور پاؤں میں بنوں وال جوتے۔ مجھے گورنر نے سینے سے لگایا اور کہا کہ میں نے اُٹھ کر آپ کو نہیں آپ کی سادگی کو خراجِ عقیدت پیش کیا ہے۔ وہاں موجود لوگ سارے کھڑے تھے اور میری عاجزی کی وجہ سے مجھے خراجِ عقیدت پیش کر رہے تھے۔‘‘
غازی بابا سے میری بھی عقیدت ان کے فن سے زیادہ ان کی عاجزی اور انکساری کی وجہ سے ہے۔ جو لوگ منکسر المزاج ہوتے ہیں، وہ میرے لیے اتنے محترم ہوتے ہیں کہ جی کرتا ہے کہ میں خود فرش بن جاؤں اور ان کے قدم میرے اوپر پڑیں۔ مَیں غازی بابا کی وفات سے دلی طور پر غمگین ہوں۔ آپ کی وفات سے پشتو ادب ایک عظیم شاعر اور ادیب سے محروم ہو گئی۔ یہ خلا مدتوں بعد بھی پوری نہیں ہو سکے گا۔ بقولِ جمشید علی جمشیدؔ
خیال می نہ شی چی بہ بیا سپرلی یادیگی
دَ سندرو بابا گور تہ ورکوزیگی
مینہ والو، نن دَ سیالؔ سپارنہ نہ دہ
نن بہ گل او دَ سپرلی جنازہ کیگی
………………………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔