’’خیریت جانبین نیک نصیب باد!‘‘ اپنی وادئی سوات کے صدر مقام سیدو شریف کی مشرقی سرحد کی رکھوالی پر مامور مضافاتی بستی کوکارئی میں یوں اذان ہوتی ہے اور یوں جاگ جایا کرتے ہیں، گویا اِس بابت کسی مفاہمتی یادداشت پر دستخط کیے ہوئے ہوں ہم نے اور مولوی نے۔ مولوی کا معاملہ تو خیر خدائے ذوالجلال بہتر جانے یا وہ خود جانیں، ہم تو اپنے تئیں بڑی گہری نیند سے بیدار ہوئے ہیں، اتنی گہری کہ جاگنے کے بعد دماغ کا سوفٹ وئیر وقت کی پہچان سے عاجز ہوگیا ہے کہ دن ہے یا رات، فجر ہے یا ظہر، عصر ہے، مغرب یا کہ عشا؟ وقت اور دماغ کا اَٹوٹ رشتہ ٹوٹ بہ ٹوٹ کا شکار ہوگیا ہے، واقعی۔ ایک ڈیڈلاک کی سی کیفیت ہے، خدا خیر کرے۔ یہ اُلجھن فی الفور سلجھن میں بدلتی ہے جب اذان اذان میں ’’نماز نیند سے بہتر ہے‘‘ کی صدا کانوں میں رس گھولتی ہے، جو شہادت دیتی ہے کہ رات کی تاریکی میں زندگی کی روشنی سرائیت کرنے کو ہے، اور ایک پُرنور فجر روا ہونے کو ہے۔
یہی تاریکی تو ہے غازۂ رخسارِ سحر
صبح ہونے ہی کو ہے، اے دلِ بے تاب ٹھہر!
آس پاس زیتون کے درختوں میں مقیم پرندے چڑیاں اور مینائیں صبح ہونے پر اُس ہستی کی خدمت میں حمد و ثنا کا نذرانہ پیش کر رہی ہیں، جو یہ عمل کرنے پر قادر ہے۔ بندہ فکر میں پڑ جاتاہے ذکر شدہ مخلوق کا  ذکر و اذکار سنیں یا خود اِس کی شروعات کریں، یا بیک وقت دونوں کارروائیوں کا ڈول ڈالیں؟ اِن میناؤں کو ایک زمانے سے یہ ایڈکشن بھی ہوگئی ہے کہ جیسے ہی ذکر و اذکار کے فریضے سے فراغت پاتی ہیں، ویسے ہی ہمارے ’’کاشانۂ کشوری‘‘ میں باجماعت لینڈنگ فرماتی ہیں۔ دروازہ کھلا پاکر دھڑلے سے ہمارے ’’کیوبیکل روم‘‘ میں آگھستی ہیں۔ ہماری چارپائی پر چڑھتی ہیں، اور اُس کمبل کے اوپر گھومتی گھامتی ہیں، چہل قدمی کرتی ہیں جس کے اندر ہم فولڈ ہوئے پڑے ہوتے ہیں۔ وہ اپنی تیز چونچ اور نوک دار پنجوں سے اُسی کمبل کو مروڑتی ہیں۔ اٹھکیلیاں سوجھتی ہیں اور موج مستی کرتی ہیں۔ ہم کوئی ارادی یا غیر ارادی حرکت کرتے ہیں، تو یہ مخلوق اُڑ کر فرش پر جا بیٹھتی ہے۔ اپنے سر کو زور زورسے سینے سے مار کر ہمارے خلاف باقاعدہ احتجاج کے نعرے بلندکرتی ہیں۔ یہ ان کی شرارت کا وکرا انداز ہے، لفظوں میں جس کا اظہار قطعی ناقابلِ بیان ہے۔ یہ تب سکون کا سانس لیتی ہیں جب ہم اُٹھ کر عارضی طور پر کمرے سے ہجرت کرتے ہیں۔ اما بعد وہ باورچی خانے کو اپنا مقبوضہ کشمیر بناتی ہیں اور جب تک اُن کی عمل داری وہاں چلتی ہے، یہ کسی اور پرندے کو اپنی ہمسائیگی کا حق تک نہیں دیتیں۔ اِن میناؤں کی شریف شکلوں پر نہ جائیں، اِن کی بدمعاشی پر جائیں۔ مجال ہے کسی اور قبیلے کا پرندہ آس پاس گزرنے کی کوتاہی کرے، اور یہ اُسے لقمۂ اجل بنانے کی ’’تابیا‘‘ نہ کریں یا کم سے کم اُن کو یہ وارننگ نہ دیں۔
میرے انگنے میں تمہارا کیا کام ہے؟
اِس پر طرہ یہ کہ منظور کی ماں اِن کی ایسی آؤ بھگت کریں، ایسی کہ ناشتے میں اِن کو پراٹھے کھلائیں، کبھی چاول اور ’’چکن جل فریزی‘‘ سے خاطر تواضع کریں۔ کہیں مجبوری میں سادہ روٹی ’’سرو‘‘ کی جائے، پھر اُن کے شور شرابے کی کیفیات دیکھنا اور پرویز خٹک فیم احتجاجی ڈانس کے مظاہرے دیکھنا۔ زندگی کے سازوں میں پرندوں کی یہ "توتکار”، یہ چہچہاہٹ، یہ چہل پہل، یہ ویلیو ایڈیشن بڑا ’’سازِندہ‘‘ اور خماری نہیں۔ یہ تو ایک طرف، ہمارے خور و نوش کے نظام میں بھی اِن کا کردار اتنا ہی اہم ہے جتنا حضرتِ انسان خود۔
بات ہو رہی تھی صبحِ صادق کے روا ہونے کی، میناؤں کی اداؤں نے بہکا کر سیدھے راستے سے بھٹکا دیا۔ تو بات ہو رہی تھی اذان کی اور بعد کی صورت حال کی، جس کے بعد وقفے وقفے سے اشرف المخلوقات کا شور شرابا شروع ہوجاتا ہے۔ اپنے دماغ کا ’’پی وَن کمپیوٹر‘‘ کام پر آ جاتا ہے، تو یکایک یاد دلاتا ہے کہ آج تو بریکوٹ کے ایک ساتھی کے ساتھ کہیں دور نکلنے کا، گھومنے پھرنے کا، بھٹکنے، پھدکنے اور لوفری کا شیڈول طے ہے۔ یہ سفر اور چکر کے چسکے منھ کو پڑجائیں، تو کسی کے مصداق وہ لوگ ’’کھڑاؤں اُتار کر چین سے نہیں سوتے۔‘‘ فوری سیدھے ہوتے ہیں، بھاگم بھاگ تیار ہونے کے مختلف مراحل سے گزرتے ہیں۔ ریفریش ہونا، کپڑے بدلنا، اپنے ہی کمانڈ میں نماز ادا کرنے کی رسمی ڈسپلے کرنا، ناشتہ تیار ہونے تک کے فالتو اوقات میں خدا کو یاد کرنے کی ’’ڈرامہ بازی‘‘ کرنا، فی الفور ناشتے کا فریضہ سرانجام دینا، قدِآدم آئینہ کے سامنے کھڑے ہوکر کافی دیر تک اپنی مانگ سنوارنا، زادِ راہ بھی اُٹھانا، اپنے در کی دہلیز سے گاڑی کی سیٹ پر تشریف فرما ہونا، گاڑی کا سلف مارنا اور آگے پیش قدمی کرنا، یہ تمام اعمال تو پورے دو گھنٹوں کا کھیل ہیں، بابا!
گھڑی کی سرگرم سوئی، کاہل سوئیوں کو کھینچ کھینچ کر سات کا باجا بجانے کے لیے ’’کیٹ واک‘‘ کر رہی ہے۔ دِن ہے ہفتہ مبارک کا، اور اللہ سب کا بھلا کرے ماہِ اکتوبر دو ہزار اُنّیس کی تاریخ ہے بارہ۔ محلے کی پُلِ صراط والی گلی سے گاڑی سڑک کی طرف نکالتے ہیں۔ سوات کے مین شہر مینگورہ کی طرف رُخ کیے آہستہ آہستہ چلتے ہیں۔ گاڑی بھی گرم ہوتی جائے گی، اور اپنی بستی کی صبح کا تازہ بہ تازہ احوال بھی سناتے جائیں گے۔ آخر "یہ بستی بھی تو پڑی ہے راہوں میں!” جہاں پانچ کلومیٹر سڑک کی بربادی کا یہ عالم، پہاڑوں کی کھدائی اور درختوں کی کھٹائی کا یہ عالم، کمیشن و بھتا خوری کا یہ عالم، وزیروں مشیروں کے بار بار افتتاحوں اور بے سرو پا جھوٹے دعوؤں کا یہ عالم اور اُن کی تصویری جھلکیاں فیس بک پر شیئر کرنے کا یہ عالم، پچھلے پانچ چھے سالوں سے بڑی پارسائی کے ساتھ جاری ہے، لیکن یہ سڑک ہے جس کی تکمیل کا معجزہ رونما ہونے والا نہیں۔
بہ صد احترام، معاف فرمائیں جی، ویسے یہ حکمران جس طرح بے وقوف نوجوانوں کا ’’جھوٹ بولو، ڈٹ کے بولو، بے شرمی کا ہر حد عبور کرکے بولو، اور لوگوں کو صلواتیں سنا کے بولو‘‘ کی جو تربیت دے رہے ہیں، بخدا بڑا ظلم نہیں کر رہے ہیں!
آپ ہی اپنی اداؤں پہ ذرا غور کر یں
ہم اگر عرض کریں گے، تو شکایت ہوگی
(جاری ہے)

……………………………………………

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔