لاہور ہائی کورٹ نے سابق وزیر اعظم نواز شریف کی شوگر ملز کے ذریعے منی لانڈرنگ کے الزام میں طبی بنیادوں پر رہائی کی درخواست منظور کرلی ہے۔ سابق وزیراعظم کو طبیعت ناساز ہونے اور جسم میں پلیٹلیٹس کم ہونے کی وجہ سے نیب لاہور کی حوالات سے سروسز ہسپتال منتقل کیا گیا تھا۔ سابق وزیر اعظم کے معالج ڈاکٹر محمود ایاز کے مطابق بیماری کی ابھی تک تشخیص نہیں ہوسکی ہے۔ ڈاکٹر ایاز محمود نے عدالت کو بھی اپنے بیان میں بتایا کہ نواز شریف کے پلیٹلیٹس تیزی سے ختم ہو رہے ہیں، ایک طرف لگائے جاتے ہیں، تو دوسری طرف 24 گھنٹوں میں پلیٹلیٹس کی تعداد پھر کم ہو جاتی ہے۔ دو رُکنی بینچ کے استفسار پر ڈاکٹر محمود ایاز نے بتایا کہ دن میں تین مرتبہ میڈیکل چیک اَپ کیا جاتا ہے۔ شوگر، بلڈ پریشر، یورک ایسڈ، دل کے عارضہ سمیت دیگر طبی پیچیدگیاں ہیں۔ طبی پیچیدگیوں کی وجہ سے علاج میں بھی احتیاط برتی جا رہی ہے۔
پاکستان کے سابق وزیرِاعظم نواز شریف بدستور لاہور کی سروسز ہسپتال میں زیرِ علاج ہیں جہاں ان کے جسم میں پلیٹلیٹس کی تعداد میں اُتار چڑھاؤ دیکھنے میں آرہا ہے۔ تاہم پلیٹلیٹس کی کمی کی وجہ سے نواز شریف کو کس قسم کی پیچیدگیوں کا خطرہ ہو سکتا ہے؟ واضح رہے کہ نیب کو شریف فیملی سے دورانِ تفتیش نواز شریف کے چوہدری شوگر مل کیس میں مبینہ بینی فشری ہونے کے شواہد ملے تھے۔ شواہد کی روشنی میں احتساب عدالت میں نیب لاہور نے نواز شریف سے چوہدری شوگر مل کیس میں تحقیقات کے لیے درخواست دی تھی، جس پر نیب کو اجازت ملی۔ نیب چوہدری شوگر مل کیس میں شہباز شریف، مریم نواز، حمزہ شہباز اور یوسف عباس شریف سے تحقیقات کر رہا ہے۔ کیس میں یوسف عباس اور مریم نواز پہلے ہی حراست میں ہیں، تاہم اب تک نیب کیس کا ریفرنس دائر نہیں کرسکی۔ مریم نواز شریف کی بھی ضمانت کی درخواست دائر ہے جس کی سماعت 28 اکتوبر کو ہوگی۔ مریم نواز شریف بھی طبیعت ناساز ہونے ہونے کی وجہ سے طبی بنیادوں پر ان کی بھی ضمانت ہونے کے امکانات نظر آ رہے ہیں۔ سابق وزیراعظم اس وقت اسلام آباد کی احتساب عدالت کی جانب سے العزیزیہ سٹیل ملز ریفرنس میں سات سال قید کی سزا کاٹ رہے ہیں، جب کہ ’’فلیگ شپ انویسٹمنٹ ریفرنس‘‘ میں انہیں باعزت بری کر دیا تھا۔ میاں محمد نواز شریف کو احتساب عدالت نے العزیزیہ ریفرنس میں سات سال قید، دس سال کے لیے کسی بھی عوامی عہدے پر فائز ہونے پر پابندی، ان کے نام تمام جائیداد ضبط کرنے کا فیصلہ دیا ہے، اور ساتھ ساتھ تقریباً پونے چار ارب روپے کا جرمانہ عائد کیا ہے۔
میاں نواز شریف کی اسیری کے دوران میں ان کی بیماری کے حوالے سے حکمراں جماعت کے متعدد وزرا کے ایسے بیانات آتے رہے، جن اچھا تأثر پیدا نہیں ہوا تھا۔ تاہم سابق وزیر اعظم کے بار بار جیل جانے اور ریفرنسوں پر گرفتاری کے حوالے وفاقی وزرا تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے یہ بیان بھی دیتے نظر آئے کہ وہ رقم ادا کرکے رہائی پاسکتے ہیں۔ وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے متعدد بار اس بات کا اظہار کیا جاچکا ہے کہ ان سے سے این آر او مانگا جا رہا ہے، لیکن وہ کسی صورت این آر او نہیں دیں گے۔ تاہم اس حوالے سے انہوں نے این آراُو مانگنے والوں کے نام نہیں بتائے۔ حکمران جماعت کی جانب سے یا تاثر دیا جاتا رہا ہے کہ میاں نواز شریف بیماری کی آڑ لے رہے ہیں۔ انہیں سنگین نوعیت کی بیماریاں لاحق ہیں، جس پر نون لیگ کی قیادت کی جانب سے توجہ نہ دیے جانے کے بھی الزامات عائد کیے جاتے رہے ہیں۔ اس وقت گو کہ سابق وزیر اعظم کی بیماری کے حوالے سے حکومتی میڈیکل بورڈ بھی مرض کی درست تشخص نہیں کرسکا ہے۔ اس لیے ریمانڈ کے دوران میں ضمانت دیے جانے کا فیصلہ آیا ہے۔ عموماً جسمانی ریمانڈ کے دوران میں ضمانت کا عمل نہیں کیا جاتا، لیکن سابق وزیر اعظم کی حالت تشویش ناک بتائی جا رہی ہے۔ شاید یہی وجہ تھی کہ ضمانت کی درخواست پر نیب کے پراسیکوٹر نے بھی کوئی اعتراض نہیں کیا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ حکومت میاں نواز شریف کو بیرونِ ملک جانے کی اجازت دیتی ہے یا نہیں۔ تاہم اس سے قبل سابق وزیر اعظم کو العزیزیہ میں ملنے والی سزا میں ضمانت کا مرحلہ گزارنا ہوگا۔ چوں کہ طبی بنیادوں پر پہلے بھی سابق وزیر اعظم کی سزا معطلی کے بعد ضمانت مل چکی ہے۔ اس لیے توقع یہی کی جا رہی ہے کہ موجودہ صورتحال کے تناظر میں میاں نواز شریف کو العزیزیہ کیس میں بھی ضمانت مل سکتی ہے، جس کے بعد بیرون ملک علاج کے لیے جانے کے مرحلے میں سب سے پہلے میاں نواز شریف کو راضی کرنا بتایا جارہا ہے۔ کیوں کہ میاں نواز شریف بیرونِ ملک بھی اپنا علاج نہیں کرانا چاہتے، تاہم شہباز شریف و اہل خانہ کے دباؤ پر سابق وزیر اعظم بیرونِ ملک علاج کے لیے رضامند بھی ہوجاتے ہیں، تو ’’ایگزٹ کنٹرول لسٹ‘‘ سے نام نکالنے اور عدالت کی جانب سے اجازت کا ایک اہم مرحلہ آئے گا۔ حالاں کہ وزیراعظم عمران خان نے اپنے حالیہ بیان میں سابق وزیر اعظم کی بیماری پر تشویش کا اظہار کیا تھا، اور صوبائی وزیرِ صحت ڈاکٹر یاسمین راشد کا بیان بھی سامنے آیا تھا کہ انہیں میاں نواز شریف کے بیرونِ ملک علاج پر اعتراض نہیں ہوگا۔
میاں نواز شریف کی تمام تر سیاست کا دار و مدار ان کے اپنے بیانیہ پر قائم رہنے پر ہے۔ کیوں کہ پاکستان مسلم لیگ ن اس وقت افراتفری و دھڑے بندی کے بحران سے گزر رہی ہے۔ نون لیگ کی اعلیٰ قیادت جیل میں ہے اور شہباز شریف کی اپنی کمر درد کی بیماری کی وجہ سے سیاسی طور پر فعال نہ ہونے کی وجہ سے پاکستان مسلم لیگ ن کا مستقبل میاں نواز شریف کی سیاسی حکمت عملی پر طے ہے۔ اس کااظہار کیا جارہا ہے کہ اگر میاں صاحب بیرونِ ملک جا کر واپس نہ آئیں، اور کسی بہتر وقت اور ڈیل کا انتظار کریں، تو اُس وقت تک ن لیگ میں کافی توڑ پھوڑ ہوچکی ہوگی۔
اس وقت 31 اکتوبر سے حزبِ اختلاف کی حکومت مخالف تحریک کا بھی آغاز ہوچکا ہے، اور اسلام آباد سمیت ملک کے کئی شہروں کو حکومت نے پیش بندی کے تحت محاصرہ کیا ہوا ہے۔ ممکنہ کسی بھی گڑبڑ کو روکنے کے لیے حکومت کی حکمت عملی میں ریاست کی جانب سے طاقت کا استعمال ہونے کے خدشات ہیں۔ اس لیے حکومت کے لیے جہاں اپوزیشن کا احتجاج دباؤ پیدا کررہا ہے، تو دوسری جانب ملک کے سابق وزیر اعظم کی بیماری کی تشویش ناک حالت کے سبب کسی بھی قسم کا رسک لینا، حکومت کے لیے بڑے مسائل پیدا کرسکتا ہے۔ حکومت اپوزیشن کے احتجاج اور ممکنہ اسلام آباد میں جمعیت علمائے اسلام ف کے دھرنے کو کسی بھی صورت ناکام بنانا چاہتی ہے۔ ان حالات میں حکومت پر شدید سیاسی دباؤ ہے۔ پاکستان مسلم لیگ ن کے لیے میاں نواز شریف کے ساتھ مریم نواز صفدر کی ضمانت پر آنے سے ملکی سیاست میں ہلچل پیدا ہونے کا قوی امکان ہے۔ اس حوالے سے سیاسی پنڈتوں کا خیال ہے کہ اگر میاں نواز شریف پاکستان سے باہر نکلنے میں کامیاب ہوگئے، تو اپنے خلاف حکومت کے بڑھتے دباؤ کو کم کرنے کے لیے اہم چینل استعمال کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے۔ چوں کہ میاں نواز شریف کا خیال تھا کہ عدالتیں ان کی مرضی کے مطابق فیصلہ دیں گی، اورکارکنان کا شدید ردعمل بھی ہوگا، لیکن دونوں جانب سے مایوس ہونے کے بعد میاں نواز شریف کی امیدوں کا محور مولانا فضل الرحمان کا آزادی مارچ رہ جاتا ہے۔
سابق صدر آصف زرداری اوران کی ہمشیرہ بھی اس وقت جیل میں ہیں، اور یہ امکان بھی ظاہر کیا جارہا ہے کہ آصف زرداری کو بھی طبی بنیادو ں پر ضمانت ملنے کے امکانات ہیں۔ ان تمام حالات و واقعات کو پسِ پردہ کسی ڈیل سے بھی جوڑا جا رہا ہے کہ عوامی ردعمل اور موجودہ حکومت کی ساکھ کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے ڈیل کو خفیہ رکھا گیا ہے۔ گو کہ جو طبی و تشویش ناک صورتحال دونوں سیاسی جماعتوں کے قائدین کو لاحق ہیں، وہ کسی خفیہ ڈیل کی جانب اشارہ تو نہیں کرتے، تاہم سیاست میں کسی بھی امکان کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ ماضی میں بھی ایسے کئی دعوے کیے گئے کہ حکومت سے اپوزیشن نے کوئی ڈیل نہیں کی تھی، تاہم بے نظیر بھٹو سے لے کر میاں نواز شریف کی جلاوطنی تک خفیہ ڈیل کی تفصیلات وقت کے ساتھ سامنے آچکی ہیں۔ اس لیے کسی ممکنہ ڈیل کے امکانات کو بھی مسترد نہیں کیا جاسکتا، لیکن اس بات کا قوی امکان بھی موجود ہے کہ نفسیاتی جنگ میں کامیابی کس کے حصے میں کب آئے گی؟ یقینی طور پر کچھ کہنا قبل ازوقت ہے۔
اس وقت میاں نواز شریف اور مریم نواز کو جو بیماریاں لاحق ہیں، ضرورت اس بات کی تھی کہ ان کی جان کو درپیش خطرات کو کم کیا جائے، اور ان کے مناسب علاج پر توجہ دی جائے ۔ اگر نواز شریف بیرونِ ملک علاج کرانے پر رضامند ہو جاتے ہیں اور عدالتیں انہیں ضمانت پر رہائی دے دیتی ہیں، تو حکومت کو وسعت قلبی کا مظاہرہ کرتے ہوئے بیرون ملک جانے سے روکنے کی کوشش نہ کرنا ایک احسن انسانی ہمدردی کا اقدام تصور کیا جائے گا۔ بیرونِ ملک سے واپس نہ آنے پر اگر کوئی تحفظات ہیں، تو اس کا نقصان سیاسی طور پر پاکستان مسلم لیگ ن کو ہی پہنچ سکتا ہے۔ تاہم جس طرح سابق وزیر اعظم کی تشویش ناک حالت کی خبریں سامنے آرہی ہیں۔ ضرورت ہے کہ ان کو اپنی بیماری کا علاج اپنی پسندیدہ جگہ سے کرانے کی اجازت دی جائے۔ کیوں کہ سابق وزیر اعظم کے خلاف سیاسی مخالفین انتہائی سخت رویہ اپنائے ہوئے ہیں۔ اس لیے کسی کی بیماری پر سیاست کرنا زیب نہیں دیتا۔ پاکستانی سیاست میں نان ایشوز پر جارحانہ بیان بازیوں سے سیاسی ماحول پراگندا ہوجاتا ہے، جس کا براہِ راست اثر عوام پر پڑتا ہے۔
مریم نواز صفدر کی ضمانت کی رہائی کے بعد نون لیگ کے مخالفین کا بیانیہ بن سکتا ہے کہ شریف فیملی کے ساتھ بالآخر کوئی خفیہ ڈیل ہوئی ہے جسے ظاہر نہیں کیا جارہا، لیکن اس قسم کے بیانات سے ریاستی اداروں پر شکوک و شبہات و افواہیں فطری طور پر بڑھ جاتی ہیں اور ملک دشمن عناصر کو ریاستی اداروں کے خلاف منفی پروپیگنڈوں کا موقعہ بھی مل جاتا ہے۔پاکستان اس وقت معاشی و سیاسی بحران سے گزر رہا ہے۔ عدالتوں کی جانب سے کیے جانے والے فیصلے تاریخ کا حصہ بنتے جارہے ہیں۔ لہٰذا آنے والا وقت ہی ثابت کرے گا کہ کیا کہیں کسی نے اپنی حدود سے تجاوز کیا ہے کہ نہیں۔ اس حوالے سے العزیزیہ کیس اور فلیگ شپ انوسٹمنٹ ریفرنس کا فیصلہ کرنے والے جج کے خلاف سنگین نوعیت کے الزامات بھی ہیں جن کا فیصلہ کن کردار سیاسی ماحول کی پوری فضا تبدیل کرسکتا ہے۔ تاہم اس حوالے سے کہنا قبل از وقت ہے۔ العزیزیہ کیس اور فلیگ شپ انوسٹمنٹ ریفرنس کے فیصلوں پر شریف فیملی اور نیب دونوں متعلقہ فارم جاچکی ہیں۔ اس لیے اس پر اس وقت کسی قسم کی رائے دینا مناسب نہیں۔ میاں نواز شریف، آصف علی زرداری، مریم نواز صفدر سمیت تمام سیاسی رہنماؤں کے لیے عدالتیں قانون کے مطابق فیصلہ دے رہی ہیں۔

…………………………………………..

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔