روزِ اول سے جب بھی پشاور، اسلام آباد، لاہور وغیرہ کے لیے اوڈیگرام بازار سے گزرتے ہوئے موڑ مڑتا،تو دائیں ہاتھ ایک چھوٹا سا سائن بورڈ میری توجہ کا مرکز ضرور بنتا۔ مذکورہ سائن بورڈ پر آج بھی جلی حروف میں کچھ الفاظ ’’بونیر خان کالونی‘‘ کی شکل میں پڑھنے کو ملتے ہیں۔ اول اول ان الفاظ کو پڑھنے کے بعد میراذہن کچھ یوں بنا تھا کہ بونیر سے کوئی خان نقلِ مکانی کرکے آیا ہوگا، اور یہاں اپنے نام سے کالونی کی داغ بیل ڈالی ہوگی۔ آگے چل کر جب اپنے نانا جی (ر) ہیڈ ماسٹر حاجی غلام احد میرخیل سے گاہے گاہے تاریخی حوالوں میں بونیر خان کا ذکرِ خیر سنا۔ ان کے علاوہ دیگر بڑے بوڑھوں سے بھی ان کا تذکرہ سنا، تو کم از کم اتنی آگاہی حاصل ہوئی کہ بونیر خان، بونیر کے نہیں تھے۔ اب تک سوات کی جتنی بھی شخصیات کے بارے میں تحاریر، مضامین، خاکے یا پھر جتنے تحریری حوالے میری نظروں سے گزرے ہیں، ان میں بونیر خان کے بارے میں کم از کم میرے ہاتھ کچھ نہیں لگا ہے۔ اس حوالہ سے بونیر خان کے پوتے اور میرے شاگردِ خاص ’’معید خان‘‘ کے توسط سے خورشید خان سے ملاقات طے ہوئی۔ زیرِ نظر تحریر کچھ ذکر شدہ ملاقات اور کچھ اِدھر اُدھر سے اکھٹی کی گئیں معلومات پر مشتمل ہے، ملاحظہ ہو!
قارئینِ کرام! کم لوگ جانتے ہوں گے کہ بونیر خان کا اصل نام ’’سردار احمد‘‘ تھا۔ اس حوالہ سے ان کے صاحبزادے خورشید خان کہتے ہیں: ’’ایک دفعہ بچپن میں، مَیں نے اپنے والدِ بزرگوار سے اس حوالہ سے پوچھا تھا کہ آپ کو بونیر خان کیوں پکارا جاتا ہے؟ تو انہوں نے جواباً کہا تھا کہ ان کے والد (ہمارے دادا) لا ولد تھے۔ اُن دنوں چوں کہ یہ عمل ایک طرح سے رواج پاگیا تھا کہ لاولدی سے چھٹکارا پانے کی غرض سے لوگ اولیائے کرام کے روضہ پر حاضری دیا کرتے تھے۔ سو ہمارے دادا دادی بونیر میں حضرتِ پیر باباؒ کے مزار پر حاضری دینے گئے، اور وہاں اولادِ نرینہ کی دعا مانگی۔ اس کے بعد جیسے ہی دادی کی گود ہری ہوئی، تو حضرتِ پیر باباؒ سے عقیدت کی بنا پر نومولود کو بونیر خان پکارا جانے لگا۔ گو کہ ان کا اصل نام سردار احمد تھا۔ ‘‘
بونیر خان کی تاریخِ پیدائش 1929ء بتائی جاتی ہے جب کہ ان کی جائے پیدائش سوات کا تاریخی علاقہ اوڈیگرام (محلہ ابراہیم خیل) ہے۔ ابراہیم خیل کو ’’برم خیل‘‘ بھی کہتے ہیں، اور یہ میر خیل، عیسیٰ خیل یا کٹہ خیل کی طرح یوسف زئی قبیلہ کی ایک شاخ ہے۔ اسی شاخ سے بونیر خان کے آباؤ اجداد کا تعلق تھا۔
خورشید خان کے بقول، بونیر خان نے میٹرک کا امتحان ریاستِ سوات کے ودودیہ سکول سے پاس کیا تھا۔ ’’میرے ذاتی ریکارڈ میں ایک تصویر میرے پاس پڑی ہے جس میں بونیر خان، کامران خان، رحیم بخش ( پیپلز پارٹی کے شمشیر علی ایڈوکیٹ کے والدِ محترم)، کاکی خان کے والدِ بزرگوار اور ان کے علاوہ درجن بھر محترم حضرات اس میں کھڑے دیکھے جاسکتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ یہ وددیہ سکول کے جماعت نہم و دہم کا پہلا بیچ (Batch) تھا، جس کی اُس وقت مذکورہ تصویر لی گئی تھی۔ ان دنوں چوں کہ ریاست کا کوئی تعلیمی بورڈ نہیں تھا، اس لیے میٹرک کا امتحان پشاور یونیورسٹی کی نگرانی میں لیا جاتا تھا۔ اس کے ساتھ ایف اے؍ ایف ایس سی امتحانات بھی مذکورہ یونیورسٹی کی نگرانی میں لیے جاتے تھے۔ ایف اے کے بعد بونیر خان نے اپنا تعلیمی سلسلہ جاری رکھا اور بی اے کی ڈگری بھی حاصل کی۔ بی ایڈ (بیچلر آف ایجوکیشن) کو اُن دنوں بی ٹی (بیچلر آف ٹیچنگ) کہا جاتا تھا۔
ہے جستجو کہ خوب سے ہے خوب تر کہاں!
کے مصداق بونیر خان نے پشاور یونیورسٹی سے ریگولر طالب علم کی حیثیت سے بی ٹی کی ڈگری بھی حاصل کی۔ یہ معرکہ سر کرنے کے بعد جیسے ہی ریاستِ سوات واپس آئے، تو گورنمنٹ ہائی سکول بلوگرام میں ہیڈ ماسٹر کے طور پر فرائض انجام دینے لگے۔‘‘
خورشید خان کہتے ہیں کہ انہوں نے اپنے والدِ بزرگوار کے منھ سے یہ بات سنی تھی کہ مذکورہ سکول کی ہیڈماسٹری نے انہیں شہرتِ دوام بخشی اور تعلیم یافتہ لوگوں میں عزت، حتی کہ حکمرانِ سوات کی قربت تک انہیں نصیب ہوئی۔
قارئینِ کرام! بلوگرام کے بڑے بوڑھے تسلیم کرتے ہیں کہ جس دور میں بونیر خان سکول کے ہیڈماسٹر تھے، پوری ریاست میں اس ادارہ کو امتیازی حیثیت حاصل تھی۔ چاہے وہ پی ٹی پلاٹون ہو، ہاکی یا فٹ بال کی ٹیمیں ہوں، یا پھر طلبہ کی تعلیمی کارکردگی ہو، ہر میدان میں بونیر خان کی بدولت سکول کے طلبہ نہ صرف سکول بلکہ پورے علاقہ کا نام روشن کرنے میں ایڑی چوٹی کا زور لگاتے تھے۔
ہیڈماسٹری کے دوران میں انہیں ایک اچھے ایڈمنسٹریٹر کے طور پر بھی مانا اور سراہا گیا۔ علاقہ کے بڑے بوڑھوں کے بقول بونیر خان خود بھی بروقت سکول پہنچا کرتے تھے اور اساتذۂ کرام کو بھی اس کا پابند بناتے تھے۔ خود حتی الوسع چھٹیوں سے اجتناب کرتے تھے اور دوسروں کو بھی باقاعدگی سے آنے اور غیر ضروری چھٹیاں نہ کرنے کی تلقین کرتے تھے۔ سکول میں پھول پودوں کا بطورِ خاص خیال رکھتے تھے۔ پودوں کی سینچائی بروقت، تھانولے درست، روشوں میں باقاعدگی، کاٹ چھانٹ بروقت، القصہ بلوگرام کو اس وقت کے ماڈل اداروں میں شمار کیا جاتا تھا۔
خورشید خان کے بقول، جب ایم ایڈ کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد بونیر خان واپس آئے، تو انہوں نے والیِ سوات سے کہا کہ اب مجھے ڈائریکٹر یا انسپکٹر آف سکولز کے عہدہ پر ترقی دی جائے۔
ہمارے نوجوان لکھاری اور ایم فل سکالر جلال الدین یوسف زئی کے مطابق: ’’بونیر خان کے ایم ایڈ تھیسز کا عنوان "Growth of Modren Education in Swat State” تھا، جس کے پیش لفظ میں انہوں نے ’’باچا صیب‘‘ اور والیِ سوات کا شکریہ ادا کیا ہے کہ تھیسز کے لیے مواد انہیں کا فراہم کردہ تھا۔ بونیر خان نے 1963ء میں یونیورسٹی آف پنجاب سے ایم ایڈ مکمل کیا۔‘‘
خورشید خان کے بقول آج بھی بونیر خان کا لکھا گیا تھیسز، بی ایڈ اور بطورِ خاص ایم اے الیمنٹری اور ایم ایڈ کرنے والوں کے لیے خاصے کی چیز ہے۔ ’’پشاور یونیورسٹی میں ایم ایڈ کے لیے ان دنوں کوئی شعبہ نہیں تھا۔ بونیر خان کو پشاور یونیورسٹی میں راہنمائی دی گئی کہ اگر وہ واقعی ایم ایڈ کرنا چاہتے ہیں، تو انہیں اس مقصد کے حصول کے لیے پنجاب یونیورسٹی جانا ہوگا۔‘‘ خورشید خان کہتے ہیں کہ دادا جی نے بونیر خان کو صاف لفظوں میں کہا کہ بھئی، کوئی قطعۂ زمین بیچنے سے تو مَیں رہا۔ اگر پڑھنا ہی ہے، تو اپنے بل بوتے پر پڑھو۔ کچھ تو بونیر خان دورانِ سروس رقم جوڑ چکے تھے، رہی سہی کسر والیِ سوات نے ہمت بندھا کر پورا کر دی۔یوں وہ ایم ایڈ کی خاطر پنجاب یونیورسٹی کے لیے رختِ سفر باندھ کر چل پڑے۔
چلے تو کٹ ہی جائے گا سفر، آہستہ آہستہ
آپ ریاستِ سوات کے پہلے شہری بنے جس نے وہاں سے ایم ایڈ کی ڈگری حاصل کی۔
خورشید خان کے بقول، بونیر خان ریاستِ سوات کے پہلے انسپکٹر آف سکولز تھے۔ آج کل مملکتِ خداداد میں فوڈ انسپکٹر، کسٹم انسپکٹر، انکم ٹیکس انسپکٹر، ڈرگ انسپکٹر وغیرہ کی اصطلاحات تواتر کے ساتھ سننے کو ملتی ہیں، لیکن ریاستِ سوات میں سب سے پہلے انسپکٹر آف سکول یا سکول انسپکٹر کی اصطلاح جب رائج ہوئی، تو یہ اعزاز بونیر خان کو حاصل ہوا کہ انہیں مذکورہ عہدہ پر ترقی دی گئی۔ اُس دور میں آفیشل ورک کم اور معائنے زیادہ ہوا کرتے تھے۔ بونیر خان اور سید یوسف علی شاہ المعروف ’’شاہ صیب‘‘ سرکاری جیپ میں سکولوں کا معائنہ کیا کرتے تھے۔ ہیڈ ماسٹر کے دفتر سے لے کر سکول کے لیٹرینوں تک ہر چیز کا جائزہ لیا جاتا اور آخر میں ایک رپورٹ بنا کر والیِ سوات کی خدمت میں پیش کی جاتی۔ بعد میں بونیر خان اور شاہ صاحب کی سفارش پر بہتر کارکردگی دکھانے والے ہیڈماسٹر یا کسی استادِ محترم کو توصیفی سند یا نقد رقم (بطورِ انعام) سے نوازا جاتا۔
خورشید خان کے بقول: ’’یادش بخیر، ایک دن والدِ بزرگوار نے کہا کہ آج ایک خصوصی تقریب کا اہتمام کیا گیا ہے، تیار ہوجاؤ ساتھ چلنے کے لیے۔ اُس وقت دو سکوٹر منگوائے گئے تھے۔ گراسی گراؤنڈ میں سکوٹروں کو نمایاں طور پر دکھانے کی غرض سے اسٹینڈ بنائے گئے تھے، جن پر انہیں کھڑا رکھا گیا تھا۔ مجھے آج بھی یاد ہے، مکرم فٹ بالر (مکرم کیفی والے) منفرد یونیفارم زیبِ تن کیے میدان میں داخل ہوئے۔ انہیں کہتے سنا کہ ’’آج انسپکٹروں کو سکوٹر دیے جائیں گے۔‘‘ ٹویوٹا جیپ تو پہلے سے انہیں دی گئی تھی، سکوٹر دینے کا مقصد یہ تھا کہ کم فاصلہ والے سکولوں تک جلد اور کم وقت میں رسائی کی غرض سے انہیں استعمال میں لایا جائے، اور دور دراز کے علاقوں کے لیے جیپ کو۔ اس سے باآسانی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ حکمرانِ سوات تعلیم کے فروغ میں کس حد تک مخلص اور سرگرم تھے۔ ایک اور چیز جو مذکورہ تقریب کے حوالہ سے اِس وقت یاد آتی ہے، یہ تھی کہ (مرحوم) کمال استاد صاحب اپنے مخصوص انداز میں شرکائے تقریب کو بریف کر رہے تھے کہ اب والیِ سوات، بونیر خان سکول انسپکٹر کو اٹلی سے خصوصی طور پر منگوائے گئے ’’ویسپا سکوٹر‘‘ کی چابی تھمائیں گے۔‘‘
ایس پی ایس کالج کے شعبۂ مطالعہ پاکستان کے ہیڈ احسان اللہ، بونیر خان کی تعلیمی کاوشوں کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہوئے کہتے ہیں: ’’میرے والد فیروز خان (مرحوم)، بونیر خان کے شاگردِ خاص رہ چکے ہیں۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد بونیر خان ہی کے تعاون اور مشورہ سے والدِ محترم درس و تدریس کے شعبہ سے منسلک ہوگئے۔ وہ مدین سے آگے موضع چم گھڑئی کے ایک سکول میں پڑھانے جاتے تھے۔ بونیر خان چوں کہ ان کی صلاحیتوں سے واقف تھے، اس لیے انہوں نے میرے والدِ محترم کا تبادلہ اپنے علاقہ کے طلبہ کی بہتر تربیت کو مدنظر رکھ کر کرایا۔ اس کے علاوہ بونیر خان نے اگر اس علاقہ کے طلبہ اور نوجوانوں کے لیے بہتری کا کوئی کام کیا ہے، تو وہ ’’بلوگرام گراؤنڈ‘‘ ہے، جس پر قبضہ مافیا دستِ تصرف دراز کرنا چاہتا تھا، مگر یہ بونیر خان جیسے کوہِ گراں تھے جو اُس مافیا کے سامنے ڈٹ گئے اور گراؤنڈ کی حدود متعین کرکے ہی دم لیا۔‘‘
جب ریاستِ سوات کا 1969ء کو ادغام ہوا، تو پاکستان نے ریاست کے ملازمین جن میں جہانزیب کالج کے پروفیسر حضرات اور دیگر لوگ شامل تھے، کو بہ یک جنبشِ قلم برطرف کر دیا۔ اس فیصلے کے خلاف بونیر خان نے عدالتِ عالیہ سے رجوع کیا۔ اس کیس کا نام تھا "Buner Khan & Others v/s Govt. of Pakistan.” بونیر خان کا اس حوالہ سے مؤقف تھا کہ ہم ریاست کے حکمران کے اردلی یا محافظ نہیں بلکہ شعبۂ درس و تدریس سے وابستہ لوگ ہیں۔ ہم اپنے عہدوں کے لیے اہل ہیں۔ اس موقعہ پر جن پروفیسرز یا دیگر حضرات نے بونیر خان کا ساتھ دیا تھا، ان کو عدالت نے بحال کرنے کا حکم جاری کیا، اور جو عدالت نہیں گئے تھے، برطرف رہے۔ اس کے بعد ریاست نے کیس جیتنے والوں کی سینیارٹی روک دی۔ بونیر خان کہاں نچلا بیٹھنے والے تھے، ایک بار پھر عدالت کا درواز کھٹکھٹایا اور اپنا حق لے کر رہے۔
انٹرنیشنل ایجوکیشن اکیڈمی کی بنیاد بونیر خان نے دورانِ ملازمت سنہ 1979ء کو رکھی تھی۔ اس کی اولین عمارت کوزہ بانڈئی میں تھی۔ بس ڈیڑھ دو سال بعد ہی امانکوٹ فیض آباد میں سکول کے لیے عمارت کا بندوبست کیا گیا۔ خورشید خان کہتے ہیں کہ یہ سوات کے پرائیویٹ سیکٹر میں پہلا سکول تھا۔ گر چہ سنگوٹہ پبلک سکول اس سے پہلے قائم ہوا تھا اور اب بھی ہے، مگر وہ ایک مشنری سکول ہے۔ اس کی نگرانی بشپ کرتا ہے۔
بونیر خان نے دو شادیاں کی تھیں، جن سے انہیں اولاد کی شکل میں چھے بیٹے اور آٹھ بیٹیاں نصیب ہوئیں۔بیٹوں میں سب سے بڑے نثار خان (مرحوم) تھے، ان کے بعد بالترتیب مشتاق خان (ریٹائر ٹیچر)، خورشید خان (سماجی شخصیت)، افتخار خان (اے اے ڈی او)، وحید خان (کارڈیالوجسٹ،امریکہ میں مقیم) اور حمید خان (انجینئر، امریکہ میں مقیم) ہیں۔
بونیر خان ایک بھرپور اور متحرک زندگی گزارنے کے بعد 7 اگست 2004ء کو اولاً برین ہیمبرج، ثانیاً حرکتِ قلب بند ہونے کی وجہ سے انتقال کرگئے۔
…………………………………………….
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔