اسلام آباد میں اس وقت دو قسم کی چائلڈ لیبر ہے۔ ایک قسم ان بچوں کی ہے جو مختلف ریستورانوں، دکانوں ا ور چائے خانوں میں کام کرتے ہیں، یا ضرورت کی مختلف اشیا فروخت کرتے ہیں۔ ان میں مقامی بچوں کے ساتھ ساتھ غیرمقامی بچے بھی شامل ہیں۔
کوئٹہ کیفے میں کام کرنے والے بارہ سالہ لڑکے فرحان (فرضی نام) نے بتایا کہ وہ کوئٹہ سے تعلق رکھتا ہے۔ فرحان کا خاندان کراچی میں مقیم ہے اور وہ اسلام آباد میں محنت مزدوری کرتے ہوئے خاندان کا سہارا بنا ہوا ہے۔ فرحان سال میں دو مرتبہ، یعنی ہر چھے ماہ بعد گھر جاتا ہے۔ اس عرصہ کے دوران میں فرحان کے گھر میں چھوٹی موٹی خوشی کی تقریب ہو، گھر میں کوئی بیمار پڑجائے، یا کوئی خاص موقعہ آن پڑے، وہ تب تک گھر نہیں جاتا جب تک کہ چھے ماہ پورے نہیں ہوتے۔ فرحان نے وجہ پوچھنے پر بتایا کہ ’’چھٹی آسانی سے نہیں ملتی، اور اگر مل بھی جائے، تو اتنی معمولی آمدنی میں آنے جانے کا خرچہ اضافی بوجھ بن جاتا ہے۔‘‘
دوسری قسم ان بچوں کی ہے جو پیشہ ور گداگر یا مانگنے والے ہوتے ہیں۔ یہ آپ کو بازار، پارک، اسپتال، ٹریفک سگنلز یا کہیں پر بھی موجود عوامی مراکز میں باآسانی مل جائیں گے۔ ان میں مقامی بچوں کی تعداد بہت کم ہے۔ چوں کہ زیادہ تر بچے غیر مقامی ہیں، ان بچوں کی عمریں بہت کم ہوتی ہیں۔ بعض اوقات تو اتنے کمسن بچے بھیک مانگتے ہوئے مل جاتے ہیں کہ اس وقت انسان تذبذب کا شکار ہوجاتا ہے۔ ذہن منقسم ہوجاتا ہے کہ اسے بھیک نہ دے کر گداگری جیسی لعنت کی بیخ کنی کی جائے، یا پھر یہ کہ ان معصوم بچوں کو کیسے خالی ہاتھ لوٹنے دیا جا؟
میں نے ایک مانگنے والے بچے سے اس دن کہا کہ آپ سکول جانے کے ساتھ بھی تو محنت مزدوری کرسکتے ہیں؟ اس پر اس نے اپنا کوئی مسئلہ بتایا۔ وہ کسی سرٹیفکیٹ کے نہ ہونے کی بات کر رہا تھا جس کی وجہ سے اسے یہاں اسلام آباد کے سرکاری اسکول میں داخلہ نہیں دیا جارہا تھا، لیکن مجھے اس کے تلفظ کی وجہ سے اس کے اصل مسئلہ کی سمجھ نہ آسکی۔ بہرحال، ان بچوں کو سنا جائے۔ ان کے اپنے چھوٹے چھوٹے مسائل ہوتے ہیں۔ ایک بار ان کو سن لیں، تو اس میں حرج نہیں۔ دس میں سے کوئی ایک بچہ تو ہوگا جو پڑھنا چاہے گا۔ دس میں سے ایک کا مطلب سو میں سے دس اور ایک ہزار میں سو بچے ایسے ہوں گے جن کی معمولی مدد جیسے داخلہ کرانا، ضروری ڈاکومنٹس تک آسان رسائی اور رہنمائی فراہم کرنے سے یہ بچے سکول جاسکیں گے۔
شہرِ اقتدار کی خوبی یہی ہے کہ یہاں قوانین یا ان کا اطلاق نسبتاً آسان ہوتا ہے۔ پلاسٹک کے شاپر پر پابندی ہو یا رکشے کی اسلام آباد کی حدود میں داخل ہونے کی ممانعت، یہاں کی انتظامیہ کے لیے کوئی اقدام بہرحال اتنا بھی مشکل نہیں ہوتا۔ بھیک مانگنے والے بچوں کو سختی سے روکا جائے۔ جہاں جہاں یہ بچے موجود ہوتے ہیں، وہاں کے تھانوں سے اس ضمن میں مدد لی جاسکتی ہے۔ ان بچوں کے والدین کو ٹریس کرکے ان کے خلاف کارروائی کی جانی چاہیے۔ اس کارروائی کے دوران میں ممکنہ طور پر بھیک مانگنے والے پیشہ ور گینگ کے سامنے آنے کے چانسز بھی ہوسکتے ہیں۔ اگر ایسا ہوا، تو سیکڑوں معصوم بچوں کا مستقبل تباہ ہونے سے بچ جائے گا۔
دوسری جانب محنت مزدوری کرنے والے بچوں کا معاملہ یکسر مختلف ہے۔ آپ ایک ایک بچے کی کہانی سنیں۔ آپ کو ایک ایک گھر کے حالات کا اندازہ ہوجائے گا۔ جہاں اگر ایک گھر میں کمائی کرنے والا باپ فوت ہوچکا ہے، تو وہاں دوسرے گھر میں کوئی باپ بستر مرگ پر پڑا ہوا ہے۔ کہیں پر بچہ اپنی اکیلی بیوہ ماں کاکفیل بنا ہوتا ہے، تو کہیں خاندان کا کمانے والا واحد ’’مرد۔‘‘ ان کو کام سے روکنا ان کی معاشی سائیکل روکنے کے مترادف ہے۔ اس لیے ان کو روکنا مشکل تو ہوجاتا ہے، پر ناممکن نہیں۔ بچہ سکول جائے گا، تو کھائے گا کیا؟ لیکن یہ ضرور ہوسکتا ہے کہ ان بچوں سے رابطہ قائم کیا جائے۔ وہ بچے جو پڑھائی کرنا چاہتے ہوں، ان کو مدد فراہم کی جائے۔ ان کی نگرانی بھی ضروری ہے۔ یہ بچے تشدد، ذہنی ٹارچر اور تضحیک کا نشانہ بنتے ہیں۔ یہ اکثر شدید بیماری کی حالت میں بھی کام کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ انہیں اپنے حقوق کا علم نہیں۔ یہ بچے اپنے ساتھ ہونے والی تمام زیادتیوں اور ظلم کو قسمت کا لکھا سمجھتے ہیں۔ اگر یہ سب قسمت کا لکھا ہے، تو حکومت کی جانب سے ان کی مدد، حقوق کا تحفظ اور انہیں ریاست کے شہری کا حق دینا کیوں قسمت کا لکھا نہیں؟

…………………………………………………….

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔