ملبورن فلوریڈا میں ہمارے قیام کے دن تقریباً ختم ہوچکے تھے۔ یہاں ہم نے جدید صحافت کے طور طریقے دیکھے بھی اور سیکھے بھی۔ فلوریڈا ملبورن سے واشنگٹن ڈی سی کے لیے ہماری پرواز 24 جولائی کو تھی، اس لیے ایک دن پہلے جب فلوریڈا ٹوڈے آفس میں ہمارا آخری دن تھا، تو باب نے تقریباً تمام سٹاف کو ایک جگہ اکٹھا کیا۔ مَیں اور فاطمہ نے ان کی مہمان نوازی اور لوازمات کا شکریہ ادا کیا، جب کہ باب نے ہماری تعریفی کلمات کہے اور یوں ہم وہاں سے چل دیے۔ جب ہم ہوٹل آرہے تھے، توباب نے کہا کہ ہماری ’’فیئر ول پارٹی‘‘ ایک جاپانی ریسٹورنٹ میں ہوگی۔ لہٰذا وہ ہمیں شام کو ہوٹل سے جلدی پِک کرے گا۔ اس لیے ہم ہوٹل گئے، تھوڑا آرام کیا، اور باب کے بتائے ہوئے ٹائم پر تیار ہوکر انتظار کرنے لگے۔ باب حسبِ معمول ٹھیک وقت پر ہوٹل کے باہر آیا اور ہمیں اپنے گھر لے گیا، جہاں ڈونا بھی تیا رتھی۔ باب کے گھر میں چند لمحے گزارنے کے بعد وہ ہمیں قریب ہی ایک جاپانی ریسٹورنٹ لے گیا، جہا ں ہمارے لیے ایک ایسی میز مختص کی گئی جس کے درمیان کھانے پکانے کا بڑا توا لگا ہوا تھا۔ ہم نے جب مینو آرڈر کیا، تو ایک خوش مزاج باورچی ہماری طرف آیا۔ باقاعدہ سلام کلام کرنے کے بعد ہمارے آرڈر کے مطابق پکانے کا سامان نکالا، اور ہمارے سامنے بڑی مہارت سے کاٹنے لگا۔ تھوڑی ہی دیر بعد جب انہوں نے سب چیزیں کاٹیں، تو اس نے ہمارے سامنے ہی پکانا شرو ع کیا۔ مزے کی بات یہ تھی کہ وہ ہمیں محظوظ کرنے کے لیے مختلف کرتب بھی دکھاتا رہا۔ اس نے توے پر آگ کا بڑا شعلہ بھی جلایا، جس پر مَیں اور فاطمہ ڈر کے مارے تھوڑا پیچھے کی طرف سرکے۔ خیر، کچھ دیر بعد ہمارا آرڈر تیا ر تھا۔ یہ واقعی لذیذ کھانا تھا۔ ہم نے کھانا کھایا اور کافی دیر تک گپ شپ لگاتے رہے۔ جاپانی ریسٹورنٹ کا کھانا اور ماحول بہت ہی دلچسپ تھا۔ یہاں تک کہ یہاں کے ویٹرز دلکش اور انتہائی خوش اخلاق خواتین تھیں۔ ہم نے یہاں کافی وقت گزارا اور جب دیر ہوئی، تو باب نے واپسی کا اشار ہ کیا۔ بِل ادا کیا اور چل دیے۔ راستے میں ہی باب نے ہمیں صبح کی فلائٹ کے بارے میں بتایا۔ انہوں نے کہا کہ صبح باب اور ڈونا دنوں ہمیں ائرپورٹ چھوڑنے آئیں گے۔ ہم ہوٹل گئے اور سامان کی پیکنگ میں لگ گئے۔ صبح باب اور ڈونا ہمیں ائیرپورٹ لے جانے کے لیے حاضر تھے۔ میرے پاس توایک چھوٹا سوٹ کیس اور ایک بیگ تھا، جب کہ فاطمہ کا سامان ڈبل ہوچکا تھا۔ جب میں نے فاطمہ کا سامان دیکھا، تو مجھے چکر آنے لگے۔ کیو ں کہ مجھے ہی واشنگٹن تک فاطمہ میم کا سامان اس کے ساتھ لے جانا تھا۔ فاطمہ نے مبلورن میں ’’گُڈ وِل‘‘ نامی سٹور سے ڈھیر ساری خریداری کی تھی۔ یہ باغی لڑکی انگریزوں کی جتنی بھی سیکنڈ ہینڈ چیزیں دیکھتی، جھٹ پٹ خرید لیتی۔ اسے کیا خبر تھی کہ آخر میں یہ سارا بوجھ کسی کو اٹھانا پڑے گا۔ ملبورن ائرپور ٹ پہنچے، تو باب نے حسبِ معمول ایک شفیق باپ کی طرح ہمیں نصیحت کی، اور رخصت کیا۔ مَیں نے باب کے چہرے پر نظر ڈالی، تو اس پر پریشانی کے آثار نمایاں تھے۔ انسانی فطرت ہے کہ ایک ساتھ چند اچھے لمحے گزر جائیں، توانسانوں کو ایک دوسرے سے اُنس ہوجاتی ہے۔ جدائی کے لمحے کٹھن محسوس ہوتے ہیں۔ ہم نے باب اور ڈونا سے رخصت لی، اور ائیرپورٹ کے اندر گئے۔ ائیرپورٹ عملے نے جب فاطمہ کا سامان وزن کیا، تو وہ کافی وزنی تھا۔ اس لیے اسے سامان کا ڈبل کرایہ دینا پڑا۔ ہماری پرواز شارلٹ ائیر پورٹ کے لیے تھی، جہاں سے ہم نے واشنگٹن ڈی سی کے لیے دوسری پرواز لینا تھی۔ اس لیے جب ہم شارلٹ ائیرپورٹ پہنچے، تو موسم کی خرابی کی وجہ سے زیادہ تر پروازیں تاخیر سے تھیں۔ ہماری پرواز میں بھی تقریباً دس گھنٹے کی تاخیر ہوگئی تھی، جس کے لیے آئی سی ایف جے کی پروگرام منیجر نے ہمیں کال کر کے پرواز میں تبدیلی کے بارے میں آگاہ کردیا تھا۔ فاطمہ نے سوچا کہ دس گھنٹے ائرپورٹ میں گزارنے سے بہتر ہے کہیں باہر نکلیں اور شارلٹ شہر کی سیر کی جائے۔ اس کی خاطر ہم نے معلومات لی اور باہر نکل کر شارلٹ شہر کے لیے جانے والی بس میں بیٹھ گئے۔ ہم نے پورا دن شارلٹ شہر میں گزارا اور یہاں کی تقریباً ہر اہم اور خوبصورت جگہ گئے، تصویر کشی کی، یہاں کاروں کی نمائش، افریقی آرٹ کی نمائش، پارک، تھیٹر اور دوسری اہم جگہوں کی سیر کی۔ پھر جب شام قریب آئی، تو ہم واپس بس سٹاپ آئے اور ائیرپورٹ جانے والی بس میں بیٹھ گئے۔ اس بات پر خوش تھے کہ ہم نے امریکہ میں اضافی سٹیٹ یعنی نارتھ کیرولینا کا شارلٹ شہر بھی دیکھ لیا۔ رات کو دیر سے واشنگٹن ڈ ی سی پہنچے اور ہوٹل پہنچ کر ہی سوگئے۔

امریکہ میں مقیم پاکستانی جرنلسٹ کمیونٹی کے رحمان بونیری ورکشاپ سے مخاطب ہیں۔ (فوٹو: فضل خالق)

صبح جب اٹھے، تو ہوٹل کے ہال ہی میں ایک ورکشاپ کا اہتمام کیا گیا تھا، جس کا مقصد تمام فیلوز کی کارکردگی کو دیکھنا تھا۔ اس لیے ہمیں پہلے ہی سے بتایا گیا تھا کہ ہر فیلو امریکہ میں مقامی میڈیا ہاؤس کے ساتھ گزارے ہوئے وقت اور وہاں اپنی کارکردگی کے بارے میں مختصر پریزنٹیشن پیش کرے گا۔ دوپہر کے کھانے تک تمام فیلوز نے اپنی اپنی پریزنٹیشن پیش کی۔ دوپہر کے بعد پاکستانی امریکن پریس ایسوسی ایشن کے ساتھ ملاقات اور ان کے ساتھ ’’چیلنجز اینڈ اپرچونٹیز فار امیگرینٹ پاکستانی امریکن جرنلسٹ ان واشنگٹن‘‘ پر ایک ورکشاپ میں حصہ لیا۔ ان پاکستانی صحافیوں میں رحمان بونیری، انور اقبال، خرم شہزاد، یوسف چودھری، واجد علی سید، طارق فاطمی، عزیز احمد، حسن عباس اور علی عمران قابل ذکر تھے، جو امریکہ میں مختلف میڈیا ہاؤسز کے ساتھ کام کرتے ہیں۔ وہاں پاکستانی صحافیو ں اور صحافت کے لیے کام بھی خدمات سر انجام دیتے ہیں۔ مذکورہ پاکستانی صحافیوں کے ساتھ صحافت کو درپیش مسائل اور پاکستانی سیاست پر سیر حاصل گفتگو ہوئی۔ ان کے مطابق پاکستان میں ڈا ن اخبار کے بغیرنیوز رومز اپنا اثر کھو رہے ہیں۔ کیو ں کہ ایڈیٹر خود فیصلہ نہیں کرسکتے۔ یہاں تک کہ مالکان زیادہ تر ایڈیٹر رہ بن رہے ہیں، اور اپنے میڈیا ہاؤ س پر اثر انداز ہورہے ہیں، جو اشتہارات اور بزنس پر فوکس کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پیشہ ورانہ صحافت کی بقا کے لیے نیوز روم پر فوکس ضروری ہے، مگر پاکستان میں زیادہ تر نیوز رومز میں کوالیفائیڈ لوگوں کی کمی ہے، جب کہ ایک طبقہ کی جانب سے پاکستان میں ’’نیشنل انٹرسٹ‘‘ کی بات بہت چلتی ہے۔ جو لوگ پیشہ ورانہ صحافت کو اپنا ئے ہوئے ہیں، ان کوغدار کا سرٹیفکیٹ ملتا ہے۔ جارحانہ اور مرچ مسالہ صحافت یہاں نہیں چلتی۔ اچھی صحافت کے لیے ہمیں ’’اگزیجریشن‘‘ یعنی خبر کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنا ختم کرنا ہوگا۔

لکھاری (فضل خالق) اپنی تیار کردہ پریزینٹیشن پیش کر رہے ہیں۔

بحث میں یہ بات بھی سامنے آئی کہ پاکستان میں معلومات تک رسائی بہت مشکل ہے اورصحافت میں انٹر ٹینمنٹ زیادہ جب کہ ایجوکیشن کم ہوگئی ہے۔
پیمرا کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ اس ادارے کو خود ریگولیٹ کرنے کی ضرورت ہے، جب کہ میڈیا ہاؤسز کو ’’لوکلائز‘‘ ہونے کی ضرورت ہے۔
انہوں نے کہا کہ امریکی صحافت میں زیادہ تر ’’ہیومن انٹرسٹ‘‘ کی کہانیاں ہیں۔
انہوں نے کہا کہ امریکی صحافی، صحافت کے ضابطۂ اخلاق پر سختی سے عمل کرتے ہیں اور خبروں میں مرچ مسالہ لگانے کا تصور بھی نہیں کرتے، جب کہ پاکستان میں مرچ مسالہ اور خبروں کو ڈرامائی انداز میں پیش کیا جاتا ہے۔ تاہم انہوں نے کہا کہ پاکستا ن میں اب بھی اچھے اور عظیم صحافی موجود ہیں، جن سے کافی کچھ سیکھا جاسکتا ہے۔
انہوں نے اس بات کی تصدیق بھی کی کہ پاکستان میں بہت اچھے صحافی ہیں، مگر وہاں ریسورسز اتنے نہیں ہیں۔ امریکہ کے بارے میں غلط فہمیاں ہیں جو دور ہونی چاہئیں۔
انہوں نے کہا کہ امریکہ کا دورہ کرنے والے پاکستانی وفود معلومات شیئر نہیں کرتے، جب کہ امریکہ میں ایسا نہیں ہوتا اور یہاں کے سیاسی اور سفارتی عملہ کوئی بات نہیں چھپاتا۔
مذکورہ سیشن میں ہم حسن عباس سے بھی ملے، جنہوں نے پاکستان میں اپنے کیریئر کا آغاز محکمۂ پولیس میں آفیسر بھرتی ہونے سے کیا، مگر جلد ہی اکیڈمک بنااور کئی کتابوں کے مصنف بھی ہیں، جن میں انہوں نے زیادہ تر صحافتی طریقہ اور مواد کو استعمال کیا۔ انہوں نے بھی پاکستان میں صحافت کے اتار چڑھاؤ اوربدلاؤ پر بات کی۔ اس کے مطا بق پاکستان میں ڈیموکریسی مڈل ایسٹ کے کئی ممالک سے بہتر ہے، مگر اس کے باوجود اس نے چار مارشل لا ادوار دیکھے ہیں، جو دنیا میں کہیں نہیں ہوتا۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان میں ملٹری ہمیشہ الیکشن میں اثر انداز ہوتی ہے۔ اس کے مطابق جمہوریت کے لیے احتساب بہت ضروری ہے جو صحافی اچھے طریقے سے کرسکتے ہیں۔ کیوں کہ حقائق نکا لنے اور سامنے لانے سے ہی جمہوریت مضبوط ہوتی ہے۔ اس کے مطابق پاکستان میں طالبانائزیشن آخری سانسوں میں ہے، اور بہت جلد یہ پاکستان کے ماضی اور تاریخ کا حصہ بن جائے گی۔
27 جولائی کو ’’آئی سی ایف جے‘‘ کے آفس میں پاکستان میں عام انتخابات پر سیشن کا انعقاد ہوا جسے جانے پہنچانے مصنف اور محقق موید یوسف اور مائیکل کوگل مین بطورِ ماہرین چلا رہے تھے۔ یہ دونوں ایشیا پر گہری نظر رکھتے ہیں ۔ اس وقت تک چوں کہ انتخابا ت کے نتائج آچکے تھے، اور پاکستان تحریک انصاف کی یقینا حکومت بننے والی تھی، اس لیے انہوں نے کہا کہ اگر عمران نے فوج اور جوڈیشری کے خلاف اقدامات کیے، تو اس کا انجام بھی نواز شریف کی طرح ہوگا۔ پاکستان اور ہندوستان کا موازنہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ امریکہ میں ہندوستانیوں کی تعداد زیادہ ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کی آئی ٹی فیلڈ میں زیادہ مین پاؤر موجود ہے، اور ہندوستانی زیاد ہ تر بڑی بڑی آرگنائزیشنز کو لیڈ کر رہے ہیں، جب کہ پاکستان نے زیادہ تر فوجی ساز و سامان اور سٹرکچر پر دھیان دیا ہے۔
اُسی دن دوپہر کے بعد ’’آئی سی ایف جے‘‘ کے دفتر میں ہی ہمارا آخری ورکشاپ منعقد ہوا جس میں ہمیں موبائل جرنلزم کے بارے میں تفصیل سے بتایا گیا جس میں اور مختلف سافٹ وئیر کے ساتھ ساتھ موبائل فون کے ساتھ لگنے والے مختلف آلات کے بارے میں بھی آگاہ کیا گیا۔ (جاری ہے)

…………………………………………………..

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔