استعفا کا خواب دیکھنا چھوڑ دیں

گذشتہ دورِ حکومت میں تحریک انصاف نے جب اسلام آباد میں دھرنے، سول نافرمانی، لاک ڈاؤن اور اسمبلیوں سے استعفا دینے کا اعلان کیا، تو اُس وقت بھی پاکستان متعدد بحرانوں سے گزر رہا تھا۔ الیکٹرونک میڈیا، تحریک انصاف کے احتجاج و دھرنے کی پل پل کی خبر دے رہا تھا، اور کوئی ایک ایسا لمحہ نہ تھا جس میں عمران خان اور طاہر القادری کے خطاب کا بلیک آؤٹ کیا گیا ہو۔ نیوز چینل وہ سب کچھ دکھاتے رہے جو عوام شاید دیکھنا پسند نہ کرتے تھے، لیکن الیکٹرونک میڈیا نے اُس وقت اس بات کا بھی خیال نہیں کیا کہ اس سے ملک کے دیگر حصوں پر منفی اثرات پڑ سکتے ہیں۔ اب رواں کتوبرکے آخری دنوں میں حزبِ اختلاف اُسی سیاسی عمل کو دوہرا رہی ہے، اور راقم کا وہی مؤقف حزبِ اختلاف کے رہنماؤں کے لیے بھی ہے کہ اگر انتہائی شدید اختلافات ہیں، تو پی پی پی، سندھ کی حکومت کو تحلیل کردے۔ رہبر کمیٹی کی تمام سیاسی جماعتیں سینیٹ، قومی و صوبائی اسمبلیوں سے استعفا دے دیں۔ سب سے پہلے اپنی نیت کو تو واضح کریں کہ پارلیمان منتخب کی گئی یا کرائی گئی؟
ہم سب جانتے ہیں کہ کوئی بھی استعفا نہیں دے گا۔ کیوں کہ انہیں ڈر ہے کہ تحریکِ انصاف مڈٹرم انتخابات کے بجائے ضمنی الیکشن کرا کر دو تہائی اکثریت حاصل کرلے گی، اور آرڈیننس جاری کرانے کے بجائے ایوانوں سے ہر قسم کی قانون سازی کرنے کے لیے انہیں رکاوٹ کا سامنا بھی نہیں ہوگا۔ تاہم میری رائے اب بھی وہی ہے جو تحریکِ انصاف اور پاکستان عوامی تحریک کے احتجاج اور دھرنے کے وقت تھی کہ آئینی طریقہ اختیار کیا جائے، اور دھرنوں سے جو نقصان پہنچ سکتا ہے، اس سے بچا جائے۔
تحریکِ انصاف اُس وقت پارلیمان میں اتنی عددی قوت نہیں رکھتی تھی کہ وہ عدم اعتماد کے ذریعے حکومت کو تبدیل کرسکتی۔ پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کے ساتھ عمران خان کے تعلقات اچھے نہ تھے۔ اس لیے تحریکِ انصاف نے دھرنے کو 126 دن تک جاری رکھا۔ موجودہ حزبِ اختلاف کی پوزیشن گذشتہ حکومت سے مختلف ہے۔ موجودہ حکومت صرف چند نشستوں پر (بظاہر) ٹکی ہوئی ہے۔ چھوٹی چھوٹی اتحادی جماعتیں تمام تر تحفظات کے باوجود تحریک انصاف کو سپورٹ کررہی ہیں (یا ایسا کرنے پر انہیں مجبور کیا جا رہا ہے)۔
تحریکِ انصاف سے جو بھی اختلاف ہو، عمران خان بحیثیتِ وزیر اعظم ناپسند ہیں، تو پارلیمان سے تبدیلی لائی جاسکتی ہے۔ وزیر اعظم کو ہٹائیں، صدر کو فارغ کریں، اور پھر اسمبلی تحلیل کرکے انتخابات کا اعلان کردیں، لیکن ٹھہریئے! اس بات کی ’’گارنٹی‘‘ کون دے گا کہ نئے انتخابات شفاف ہوں گے؟ انہیں من و عن تسلیم بھی کیا جائے گا؟ پہلے تقریباً ہر سیاسی جماعت کا نعرہ ہوتا تھا کہ فوج کی نگرانی میں انتخابات کرائے جائیں۔ اب کہتے ہیں کہ انتخابات میں فوج کو کوئی کردار ادا نہیں کرنا چاہیے۔ کیا پارلیمان نے انتخابات کے لیے اصلاحاتی عمل اس قدر شفاف بنا دیاہے کہ جب بھی انتخابات ہوں، تو شکست خوردہ جماعتیں صدقِ دل سے قبول کرلیں گی؟ میرے نزدیک تو ایسا نا ممکن ہے۔ آرٹی ایس سسٹم کا حشر تو ہم سب دیکھ چکے ہیں۔ افغانستان میں بائیو میٹرک نظام سے ووٹروں کی تصدیق کا بدترین تجربہ ہمارے سامنے ہے۔ بھارت میں الیکٹرونک پولنگ مشینوں پر بھی بہت تنقید ہوئی، لیکن تمام تر تحفظات کے باوجود اپوزیشن نے نتائج تسلیم کیے۔ امریکی صدارتی انتخابات میں روسی سائبر مداخلت کے الزامات بھلائے نہیں جاسکے۔ بنگلہ دیش کے خونی انتخابات سیاہ تاریخ بن چکے ہیں۔ جہاں 300 میں سے 288 نشستیں چوتھی بار جیتنے والی شیخ حسینہ کو ملیں اور صرف 6 نشستیں اپوزیشن کو۔
دوسری طرف مقبوضہ کشمیر کی موجودہ صورتحال ماضی کی طرح اب بھی کشیدہ ہے۔ بھارت کی خود سری لائن آف کنٹرول پر تبدیل نہیں ہوئی۔ سب کچھ جیسا تھا ویسا ہی ہے۔ اس لیے مَیں سوچ میں پڑ جاتا ہوں کہ اگرحزبِ اختلاف احتجاج نہ کرے، تو کیا مقبوضہ جموں و کشمیر آزاد ہوجائے گا؟ ملک پر اربوں ڈالر کا قرضہ اوراداروں کے لیے کرائے کے مشیروں کی ضرورت ختم ہوجائے گی؟ افغانستان مفاہمتی عمل کامیاب ہوجائے گا؟ ایران اور سعودی عرب تنازعہ ختم ہوجائے گا؟ ترکی، شام، یمن اور صومالیہ میں دہشت گردی کا خاتمہ ہوجائے گا؟ آخر کیا ہوگا! کوئی مجھے سمجھائے کہ اگر حزبِ اختلاف احتجاج نہ کرے، تو کیا ہوجائے گا؟ ایک کروڑ نوکری اور لاکھوں گھر جادو کی چھڑی گھما کر عوام کو دے دیے جائیں گے؟ ڈالر کی سطح 1988ء کی سطح پر واپس آجائے گی؟ کرپٹ خاندانوں کو ڈی چوک پر پھانسی پر لٹکا دیا جائے گا؟ میرا یقین ہے کہ ایسا کچھ بھی نہیں ہوگا، لیکن حکومت احتجاج کو روکنے کے لیے جس قسم کے اقدامات کررہی ہے، وہ اچھا تاثر نہیں دے رہے۔ حزبِ اختلاف والے عمران خان کو رخصت کرنا چاہتے ہیں، تو انہیں پارلیمان سے آئینی طریقہ اختیار کرکے فارغ کردیں، لیکن وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ سینیٹ چیئرمین اور نائب چیئرمین کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد میں جس قسم کا اُن کے ساتھ ہاتھ ہوا تھا، وہ سب کچھ قومی اسمبلی میں دُہرایا جاسکتا ہے۔ اگر ڈی چوک کو ’’تحریر اسکوائر‘‘ بنانا چاہتے ہیں، تو ایک نظر ہانگ کانگ، لیبیا، عراق، ایران، فرانس، جرمنی اور لبنان کے احتجاجی مظاہروں کو دیکھ لیں۔ لاکھوں افراد سڑکوں پر نکلے، کیا نتائج سامنے آئے؟ کیا کچھ بدلا! برطانیہ کی مثال دیکھ لیں۔ بریگزٹ ڈیل تنازعے پر چار ورزائے اعظم تبدیل ہوگئے۔ امریکی صدر اور کانگریس کی جنگ دیکھ لیں، ٹرمپ کے مواخذہ کا کیا حشر ہوا؟
آج بھی میرا یہی ماننا ہے کہ پارلیمان منظور نہیں، تو ایوانِ بالا، ایوانِ زریں اور صوبائی اسمبلیوں سے استعفا دے دیں۔ استعفا نہیں دینا چاہتے، تو پھرپارلیمان میں اپنے جمہوری نظام کے آئین سے تبدیلی لے آئیں۔ یہ بھی نہیں کرسکتے، تو پھر عوام کو بھی دیکھ لیں۔ لبنان میں واٹس ایپ کال پر ٹیکس لگانے پر حکومت کو ہلادیا جاتا ہے، اور یہاں عوام تاریخ کی بلند ترین سطح پر ڈالر اور مہنگائی جانے پر چپ سادھے بیٹھی ہے۔ ترکی میں ایک واٹس ایپ پیغام پر لاکھوں عوام بغاوت کچل دیتے ہیں، لیکن ہمارے عوام موبائل پر ٹک ٹاک شوز دیکھ رہے ہیں۔ ہمیں ساری وجوہ کو سوچنا ہوگا۔ بالفرض عوام اسلام آباد نکل آتے ہیں، حکومت نے استعفا تو دینا نہیں، تو پھر کیا قبریں کھودیں گے، کفن تقسیم کریں گے، سرکاری املاک پر قبضہ کرائیں گے، عوام اور سیکورٹی فورسز کے ٹکراؤ سے انقلاب لائیں گے، جھنڈا سفید ہوگا یا کالا، لیکن یہ انقلاب کس کے خلاف ہوگا؟ حکومت کے خلاف، جسے پارلیمان سے ہٹا نہیں سکتے، یا اُس کے خلاف جس کے حکم کے بغیر امپائر انگلی نہیں اٹھاتا۔ احتجاج کریں، دھرنا دیں جو آئینی حق ہے، وہ سب کریں! لیکن ملک و قوم کو نقصان پہنچانے والے عناصر کی سازشوں کو مد نظر رکھیں۔
دوسری طرف حکومت مصنوعی مذاکراتی عمل و تضحیک آمیز رویے سے اجتناب کرے۔ میڈیا کو آزاد ی سے کام کرنے دے۔ عوام کو دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی دیکھنا ہے!

……………………………………………..

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔