گذشتہ ایک ہفتے سے کُردوں کے حوالہ سے خبریں مختلف نشریاتی اداروں کی زینت بن رہی ہیں، مگر جب ترک افواج نے کردوں کے خلاف طبلِ جنگ بجایا، تو مجھے کرید ہوئی کہ آخر یہ کُرد ہیں کون اور برادر ملک ترکی نے ان کے خلاف آپریشن کا آغاز کیوں کیا ہے؟ اس بارے میں کچھ مواد ہاتھ آیا، جس میں بی بی سی کی ایک مفصل رپورٹ کے مطابق: ’’اسلام سے پہلے کردوں کی آزاد حکومت کے آثار کم نظر آتے ہیں، لیکن جب خلافتِ عباسیہ کمزور ہوئی، تو جن چند گروہوں نے اپنی خود مختار سلطنتیں قائم کیں، ان میں سلطان صلاح الدین ایوبی بہت مشہور ہیں۔ اس طرح تاریخ میں سب سے مشہور کُرد حکمران صلاح الدین ایوبی ہیں۔‘‘ اس حوالہ سے اتنا تو معلوم ہوا کہ کُرد ٹھیک ٹھاک تاریخی پس منظر رکھنے والی قوم ہیں۔
وائس آف امریکہ کی اُردو سروس نے کُردوں کے بارے میں 75 سیکنڈز کی ایک چھوٹی سی ویڈیو رپورٹ میں کچھ تاریخی حوالوں کا ذکر کیا ہے، جسے یہاں من و عن رقم کیا جا رہا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ’’کُرد اپنے لیے 1695ء سے آزاد ریاست کا خواب دیکھ رہے ہیں۔ یہ ہندو یورپین نسل سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان کی طرزِ زندگی قبائلی ہے۔ کُردوں کی آبادی ایران، عراق، شام اور ترکی میں تقریباً پانچ لاکھ مربع کلومیٹر پر پھیلی ہوئی ہے۔ ڈیڑھ کروڑ کے لگ بھگ کُرد ترکی میں رہتے ہیں۔ ایران میں ان کی تعداد تقریباً ساٹھ لاکھ ہے۔ پچاس لاکھ عراق میں آباد ہیں۔ جب کہ شام بیس لاکھ کُردوں کا گھر ہے، لیکن یہ چاروں ملک کُردوں کی متحدہ سرزمین کے خواب کو اپنے لیے ایک خطرہ سمجھتے ہیں، جس کے باعث کُرد صدیوں سے تعصب اور سختیوں کا سامنا کررہے ہیں۔ کُردوں کا واحد خود مختار علاقہ عراق ہے، جس کا قیام 1991ء میں ہوا لیکن جب 2017ء میں آزادی کے حق میں ریفرنڈم ہوا، تو بغداد نے اسے غیر آئینی قرار دے دیا۔ شام میں کُرد جنگجو امریکہ کی مدد سے داعش کے خلاف لڑتے رہے ہیں، جس نے 2014ء میں سر اُٹھایا۔ عراق میں کُرد جنگجوؤں نے داعش کے خلاف لڑائی کی قیادت کی۔ ترکی میں کالعدم ’’کُردستان ورکرز پارٹی‘‘(پی کے کے) کا حکومت کے ساتھ جاری طویل تنازعہ دو سالوں کی جنگ بندی کے بعد 2015ء میں پھر بھڑک اُٹھا۔ اس تنازعہ میں 1984ء سے ابھی تک 40 ہزار افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔‘‘
بی بی سی اردو سروس کے مطابق: ’’1978ء میں کرد رہنما عبداللہ اوچلان نے ترکی میں ہی ایک آزاد کرد ریاست کے قیام کے لیے (پی کے کے ) نامی سیاسی جماعت قائم کی تھی۔ اس کے قیام کے چھے برس بعد اس گروپ نے مسلح جدوجہد شروع کردی۔‘‘
قارئین، دوسری طرف گذشتہ دنوں ترک مسلح افواج نے ’’پیس سپرنگ‘‘ نامی ایک آپریشن شروع کیا تھا۔جس کی اطلاع ترکی کے صدر طیب اردوان نے اپنے ٹویٹر اکاؤنٹ پر دی تھی۔اس آپریشن میں کُردوں کو بطورِ خاص نشانہ بنانے کی اطلاعات ہیں۔
تاریخ کے صفحات ٹٹولنے سے پتا چلتا ہے کہ کُردوں کے خلاف ایران بھی ماضی میں کارروائیاں کر چکا ہے۔ وکی پیڈیا کے مطابق ’’ایران میں کردوں کے خلاف کارروائیوں کا سلسلہ سترہویں صدی سے شروع ہوا تھا جب شاہ عباس نے کردوں کو بڑے پیمانہ پر زبردستی خراسان میں منتقل کر دیا۔ پھر 1946ء میں قاضی محمد کی قیادت میں بغاوت ہوئی، اور کردوں نے ’’مہا آباد جمہوریہ‘‘ کے نام سے ایک الگ مملکت قائم کی جو زیادہ عرصہ نہ چل سکی۔ قاضی محمد کو آخرِ کار کھلے عام پھانسی دی گئی۔‘‘
ایک اور ظلم یہ بھی تاریخ کے صفحات میں ملتا ہے کہ رضا شاہ پہلوی کے دور میں کردوں کی زبان پر پابندی عائد کی گئی تھی۔ وکی پیڈیا کے مطابق: ’’1979ء کے اسلامی انقلاب کے بعد آیت اللہ خمینی نے کردوں کے خلاف جہاد کا اعلان کیا اور بڑے پیمانے پر کرد علاقوں میں فوجی کارروائی کی گئی، آخرِکار کردوں کو گھٹنے ٹیک دینے پڑے۔‘‘

…………………………………………..

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔