وکی پیڈیا کے مطابق نامور اردو نقاد، محقق، شاعر، سابق پروفیسر و چیئرمین شعبۂ اردو اور سابق رجسٹرار کراچی یونیورسٹی ڈاکٹر اسلم فرخی 23اکتوبر 1923ء لکھنؤ برطانوی ہندوستان میں پیدا ہوئے۔
ان کا سابق وطن فتح گڑھ، ضلع فرخ آباد تھا۔ انہوں نے ایسے گھرانے میں آنکھ کھولی جو صدیوں سے علم و ادب کا گہوارہ تھا۔ ان کے خاندان کے ہر شخص کو شعرو سخن سے لگاؤ رہا ہے۔ ان کے دادا، والد، پھوپھی زاد بھائی اور یہاں تک کہ ان کی بہنیں بھی شعر کہا کرتی تھیں۔ اس کے بعد ان کا ننھیال بھی اشاعتی کاموں میں مشغول تھا۔ لہٰذا وہاں بھی ادبی ماحول تھا۔ ایسے ادبی ماحول کا اثر اسلم فرخی پر پڑنا فطری تھا یا یہ کہیے کہ ذوقِ سخن ان کو خاندانی ورثے میں ملا۔
ڈاکٹر اسلم فرخی صاحب کا شمار ملک کے ممتاز دانشوروں میں ہوتا تھا۔ انہوں نے براڈ کاسٹر کی حیثیت سے بھی بڑی خدمات انجام دیں۔ ڈاکٹر صاحب ریڈیو پاکستان کراچی سے بہ حیثیت مسودہ نگار چھے سال منسلک رہے ہیں۔ انہوں نے ریڈیو کے لیے فیچر، ڈرامے اور تقریریں لکھیں، جو گذشتہ پچاس برس سے ملک میں مقبول ہیں۔ انہوں نے ادبی زندگی کا آغاز شاعری سے کیا۔ انہوں نے غزلیں اور نظمیں بھی لکھیں، لیکن پھر بھی اپنے آپ کو شاعر نہیں کہتے۔ وہ کہتے تھے کہ نہ شاعری میری شناخت بنی، اور نہ تحقیق۔ میری پہچان خاکہ نگاری کے علاوہ وہ کام ہے جو میں نے حضرت سلطان المشائخ کے حوالے سے کیا ہے۔
ان کا اصل حوالہ، جیسا کہ وہ کہتے ہیں، حضرت نظام الدین اولیا محبوبِ الٰہی ہیں جن کے بارے میں انہوں نے چھے کتابیں لکھیں۔ فرخی صاحب اولیائے کرام سے غیر معمولی عقیدت رکھتے ہیں۔ اسی وجہ سے انہوں نے چھوٹی چھوٹی کتابوں کا سلسلہ بھی شروع کیا۔ اس کے علاوہ انہوں نے بچوں کے لیے بھی لاتعداد کتابیں لکھیں۔
حکومت پاکستان نے ان کی خدمات کے اعتراف کے طور پر انہیں صدارتی اعزاز برائے حسنِ کارکردگی سے نوازا۔
15جون 2016ء کو کراچی میں انتقال کرگئے۔