پتا نہیں کتنے عرصے بعد کسی کی کراہنے کی آوازسماعت سے ٹکراتی ہے۔ کچھ ہڑبونگ کی سی کیفیت کا احساس ہوتا ہے۔ آنکھ کھولتے ہیں دو چار ہیولے سے آس پاس کھڑے نظر آتے ہیں، لیکن ضعف اتنا ہے کہ آنکھیں پھر بند ہوجاتی ہیں۔ کچھ وقت کے لیے ہوش ٹھکانے آ جاتے ہیں، اور کچھ وقت کے لیے بے ہوشی ٹھکانے میں چلی آتی ہے۔ درونِ جسم خلفشار کی کیفیات اور اعضا ئے ضعیفہ (صغیرہ و کبیرہ) کی کشتی رانی کافی دیر جاری رہتی ہے۔ کچھ ہی عرصے میں ’’دھکا سٹارٹ‘‘ دماغ اپنا کام سنبھالنے کا اینڈیکیٹر تو دے دیتا ہے، لیکن بڑا کمزور۔ تاہم اندازہ ہوجاتاہے کہ آپریشن گاہ سے ہمیں آئی سی یو وارڈ میں درآمد کر دیا گیا ہے۔ وال کلاک میں رات کا ایک بج رہا ہے۔ گویا چھے سات گھنٹے طویل آپریشن اور بے ہوشی کے عمل سے گزر کر ہم ایک بار پھر عالمِ ارواح سے عالمِ اجسام میں آدھمکے ہیں۔ لگتاہے جیسے کسی نے گلے کو رسّے اورہاتھوں کو زنجیرڈال کرپابندِ سلاسل کیا ہوا ہو۔ اِدھر اُدھر نظریں دوڑاتے ہیں۔ کیا دیکھتے ہیں کہ کئی چھوٹی بڑی نلکیاں، تسمے اور مرہم پٹیاں، سلوشن ٹیپ و کینولے، اسفنج، پلاسٹک کی بوتل، روئی کے پھوئے اور ربڑ کے موٹے دُبلے پتلے پائپ ہمارے گلے، ناک اور ہاتھوں میں پروئے گئے ہیں۔ کچھ ایک دوسرے سے آپس میں ملتے ہیں، کچھ نہیں۔ راہیں سب کی ایک ہیں۔ کام وکرا وکرا۔ کوئی ادویہ کی سپلائی کا کام ڈھوئے، کوئی خوراک کی رسد کی ذمہ داری کندھوں پر اُٹھائے ، کوئی آکسیجن کی رسائی اور خون کی فراہمی کی اور کوئی بلغم کی نکاسی اور زخموں سے خون کے اخراج کا فریضہ سرانجام دے۔ اُف، ہم انسان ہیں یا پائپوں اورنلکیوں کا جال؟
آس پاس دیکھتے ہیں۔یہ ایک بڑا کمرہ ہے جس کے بیچ میں ٹمپرری پارٹیشن ہے جس سے کمرہ دو حصوں میں منقسم ہے۔ دوسری طرف ایک اور مریض درد سے کراہ رہا ہے، بلبلا رہا ہے، یہ افغانی جوان ہے جو کسی پیچیدہ آپریشن کے عمل سے گزر کر فی الوقت ملک الموت کے شکنجے سے بچ بچا کرنکلا ہے۔ عجب ہے کینسر کے اس ہسپتال میں زیادہ تر بیمار جنگ زدہ علاقوں کے ہیں۔ وزیرستان، سوات، پارہ چنار اورافغانستان میں ایک عرصے سے جاری بم اور بارود کے کھیل نے بالواسطہ قتل وغارت اور تباہی و بربادی کے علاوہ یہاں کے لاکھوں باسیوں کواپاہج اورکئی لاعلاج بیماریوں سے بھی دوچار کردیا ہے۔ دہشت گردی کی یہ جنگ یہاں لانے والوں کی نسلیں سر سے پیر تک کینسرمیں مبتلا ہو ں، وہ مرنے کو ترسیں، وہ جینے کو ترسیں، اُن کو مرنا نصیب ہو نہ جینا،آمین!
بیڈ کے ساتھ ہی ایک آئرن سٹینڈ کے مختلف خانوں میں ادویہ، مشروبات اور اخبارات و مکتوبات پڑے ہیں۔ اپنے تیمارداربڑے فکر مند و پریشانِ حال سانس روکے ہمارے سامنے کھڑے ہیں۔ ہم اُن کو آواز دینا چاہتے ہیں، لیکن گلا کہاں، حلق کہاں؟ ہاتھ اُٹھا کرسلام کرنا چاہتے ہیں، لیکن وہ تو حالتِ گرفت میں ہیں۔ مسکرا نا تو جیسے زخموں پر نمک چھڑکنا ہو۔ آخری آپشن کے طور پرآنکھوں آنکھوں میں اپنے زندہ ہونے کا یقین دلاتے ہیں، تب اُن کی سانسوں کی بے ترتیبی میں ربط آ جاتا ہے۔ کچھ دیرمیں بے ہوشی کے اثرات کے باعث غنودگی سر اُٹھا لیتی ہے، سوآنکھیں پھر بند ہوجاتی ہیں۔ ایسے میں ہم دور کہیں دور فکرو خیال کی پگڈنڈی میں گھومتے گھامتے ماضیِ گُم گشتہ کے نشیب و فراز میں غوطہ زن ہو جاتے ہیں، اور پیدائش سے لے کر ’’آپریشن راہِ حلق‘‘ تک بندہ مزدور کے جو بھی اوقات ہیں، یادداشت کے تہہ خانے میں انہیں نچوڑ نچوڑ کر نکالتے کھنگالتے ہیں، جس کا ذکر بعد میں کریں گے۔
یادداشت کے ذخیرے میں انیس اگست دو ہزار پندرہ کا وہ دن خصوصی طور پر یاد کرتے ہیں، جب آواز کے بیٹھنے اورگلے میں گڑ بڑ کے چیک اَپ کے لیے ہم رحمان میڈ یکل انسٹی ٹیوٹ حیات آباد پشاور کے ڈاکٹر افتخار اسلم کے پاس گئے۔ اُنہوں نے گلے کی زیارت کے واسطے پہلے منھ کھولنے کی ہدایت کی۔ پھر ٹارچ لگائی، اوراُس کو روشنی کی مدد سے نظریں گلے میں فوکس کیں، تو تب ہم نے مانا کہ آنکھ کو بھی دیکھنے کے لیے روشنی کی ضرورت ہوتی ہے۔ ورنہ رات کو یہ کیوں بے نور ہوجاتی ہیں؟ خیر، ہماری فلسفیانہ سوچ سے بے نیازڈاکٹر نے ہمیں انگریزی کے الفاظ ’’اے، ای، او‘‘ کی گردان کرنے کی تاکید کی۔ اُنہوں نے ٹارچ بند کرکے ایک طرف رکھ دی۔ کاغذ اُٹھایا۔ اُس پر دو تین الفاظ لکھے، اوردیکھے بغیر کاغذ کو میری طرف بڑھا تے ہوئے فرمایا: ’’آواز پیدا کرنے والے جِھلّی ’’ووکل کارڈز‘‘ کا مسئلہ ہے، جو بڑا سیریس ہے۔ فوری طورپر ’’بیاپسی‘‘ کی ضرورت ہے۔‘‘
اکوڑہ خٹک کے دوست شمس العارفین ہمارے ساتھ تھے۔ ڈاکٹر کے ساتھ بات کرکے وہ بڑے رنجیدہ ہوئے، تاہم وہاں سے نکل کر ہمیں تسلیاں دیتے رہے۔ اللہ کی شان ہے، ہمیں تسلیاں اوردُعائیں دینے والے اُس شمس کے دِل نے حال ہی میں دھڑکنا چھوڑکرجسم سے جان کا رشتہ ہی توڑ دیا۔ اسی طرح ہمارے حال پر فکرمند کئی اور دوستوں نے اِس دارِ فانی سے دارِلافانی کی طرف ’’مارچ پاسٹ‘‘ کیا۔ کسی کا کوئی نہ کوئی عضو معطل ہوا۔ نیلی چھتری والے نے ہمیں بقیدِ حیات رکھنا تھا، تواِن معاملوں کے ماہر افضل شاہ باچا کوہماری خدمت پرمامور کیا۔ اُنہیں ہمت و حوصلہ بھی دیا۔ وہ ہمیں زبردستی کھینچتے رہے۔ در بہ در، کو بہ کو ڈاکٹروں کے پاس پہنچاتے رہے۔ انتظار کی زحمتیں سہتے رہے۔ موسموں کی شدتیں برداشت کرتے رہے اور ایک نہیں دو تین نہیں، پورے چار سال تک بڑی دل لگی کے ساتھ ہمارے ساتھ سائے کی طرح چلتے رہے۔
اپنی مرضی ہوتی، توہم یوں کرتے کہ کرۂ ارض میں موجود کڑوے کٹھے خاصیت والے پودوں کے پتے اور جڑیں جمع کرکے سکھاتے پِساتے اور ملغوبہ بنا کرصبح دوپہررات بیسیار پانی کے ساتھ لے کر خود کو خدا کے حوالے کرتے، اور امابعد ساحرؔ لدھیانوی کی شہرہ آفاق نظم کا یہ مصرعہ گنگناتے کہ
زندگی اوربتا تیرا ارادہ کیا ہے؟
……………………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔