وکی پیڈیا کے مطابق اردو کے ممتاز نقاد، شاعر اور محقق ڈاکٹر تحسین فراقی 17 ستمبر 1950ء کو پتوکی، ضلع قصور میں پیدا ہوئے۔
سرزمینِ پاکستان میں موجود گنے چنے افراد میں سے وہ ایک ہیں جو اردو، فارسی، عربی اور انگریزی زبان پر دسترس رکھتے ہیں اور انہوں نے ان زبانوں کے ادب کا گہرا مطالعہ بھی کررکھا ہے۔ تدریس، تنقید، تحقیق، شاعری اور ترجمہ نگاری میں ڈاکٹر تحسین فراقی کا کام ان کی شخصیت کے پہلو دار ہونے کا غماز ہے۔ ادبی حلقوں میں ان کی شاعری و تحقیقی کاوشوں کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔
’’جستجو‘‘ ان کے تنقیدی مضامین کا پہلا مجموعہ ہے۔ ’’معاصر اردو ادب‘‘، ’’افادات‘‘ بھی ان کے تنقیدی مجموعے ہیں۔ حال ہی میں ن م راشدؔ پران کی کتاب ’’حسن کوزہ گر‘‘ کے نام سے شائع ہوئی ہے۔
تحقیق کے میدان میں اُن کا ایک علمی کارنامہ ’’عبد الماجد دریابادی، احوال و آثار‘‘ پر ڈاکٹریٹ کا مقالہ ہے جس کو علمی حلقوں میں بہت زیادہ پذیرائی ملی۔ یوسف خاں کمبل پوش کے قدیم ترین سفر نامہ ’’عجائباتِ فرنگ‘‘ کی تدوین و ترتیب کا جوکھم بھی انہیں نے اٹھایا۔ چند برس قبل ’’فکریات‘‘ کے نام سے ان کی فکر افروز کتاب سامنے آئی، جس میں انہوں نے دور جدید کی قابل قدرعلمی شخصیات کے اہم ترین مضمون کو اردو کے قالب میں ڈھالا۔
غالبؔ و اقبالؔ بھی ڈاکٹر تحسین فراقی کی تنقید کا اہم حوالہ ہیں۔ ’’دیوانِ غالبؔ‘‘، ’’نسخۂ خواجہ‘‘، ’’اصل حقائق‘‘ ان کا ایک اور تحقیقی کارنامہ ہے۔
اقبالؔ پر ان کے مضامین پر مشتمل کتابیں ’’جہاتِ اقبالؔ‘‘ اور ’’اقبالؔ، چند نئے مباحث‘‘ کے نام سے ہیں۔
مرزا عبدالقادر بیدلؔ بھی آپ کے محبوب شاعر ہیں۔اقبال کی انگریزی تحریر’’Bedil in the light of Bergson‘‘کا اردو میں یہ ’’مطالعۂ بیدل، فکربرگساں کی روشنی میں‘‘ کے عنوان سے ترجمہ کرچکے ہیں۔ ’’نقشِ اول‘‘ کے نام سے بھی آپ کا شعری مجموعہ چھپ چکا ہے۔ دوسرا شعری مجموعہ ’’شاخِ زریاب‘‘ کے نام سے 2012ء میں شائع ہوچکا ہے ۔
ان کی اب تک اکتیس تنقیدی، تحقیقی اور علمی کتب شائع ہو چکی ہیں۔