(خصوصی رپورٹ: فیاض ظفر) سوات سے تعلق رکھنے والے تحریک انصاف کے سابق رہنما اور سابق ایم پی اے بلدیو کمار نے بھارت پہنچ کر سیاسی پناہ کی درخواست کر دی۔ بلدیو کمار نے بھارت میں ایک رشتہ دار خاتون سے شادی کی تھی، جس سے ان کا ایک بیٹا اور بیٹی ہیں۔
بلدیو کمار خود، اُن کے والد نانک چند مرحوم اور ان کے دیگر اہلِ خانہ سوات میں پیدا ہوئے۔ ان سب کا کاروبار سوات میں ہے۔
بلدیو کمار نے اپنی اہلیہ اور دونوں بچوں کو چند ماہ قبل بھارت بھیجا جس کے بعد ان کی بھارتی اہلیہ نے واپس پاکستان آنے سے انکار کردیا۔ بعد ازاں انہوں نے انڈیا کا سیاحتی ویزا حاصل کیا اور کچھ عرصہ پہلے بھارت گیا جہاں گذشتہ روز بھارتی نیوز چینلوں کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان اقلیتوں کے لیے غیر محفوظ ملک ہے اور وہاں ان کی جان کو خطرہ ہے۔انہوں نے کہا کہ سوات میں طالبان تھے۔ فوجی ہیلی کاپٹروں سے شیلنگ ہوتی تھی اور ان کے بچے کافی خوف زدہ تھے۔ اب بھارت آکر وہ خود کو محفوظ تصور کرتے ہیں۔
ایک سوال کے جواب میں بھارتی چینلوں کو انہوں نے کہا کہ کشمیر کا مسئلہ کافی عرصہ سے ہے، لیکن میں بھارتی حکومت کا مشکور ہوں کہ انہوں نے ابھی تک کشمیر میں ہیلی کاپٹر نہیں بھیجے۔
اقلیتوں کے خصوصی کوٹے میں ایم پی اے بننے والے سابق وزیر اعلیٰ پرویز خٹک کے معاونِ خصوصی سردار سورن سنگھ کو اپریل2016ء میں قتل کیا گیا تھا۔ تحریک انصاف کے اقلیتی ایم پی ایز کی لسٹ میں سورن سنگھ کے بعد بلدیو کمار کا نمبر تھا جس کی وجہ سے پولیس تفتیش کے بعد بلدیو کمار کو دیگر چار ساتھیوں سمیت گرفتار کیا گیا۔ دورانِ قید بلدیو کمار نے حلف کے لیے سپیکر کو خط لکھا، لیکن سپیکر اور اراکینِ اسمبلی کے مطالبہ پر ان سے حلف نہیں لیا گیا، جس کے بعد انہوں نے پشاور ہائی کورٹ سے رجوع کیا۔ اسمبلی کی مدت ختم ہونے سے ایک دن پہلے ہائی کورٹ کے حکم پر ان سے حلف لیا گیا جس کے بعد وہ چند گھنٹوں کے لیے ایم پی اے رہے۔ 26 اپریل2018ء کو انسدادِ دہشت گردی بونیر کی عدالت نے بلدیو کمار کو عدم ثبوت کی بنا پر بری کردیا۔
بریکوٹ سوات میں بلدیو کمار کے کزن اور اے این پی کے سابق سنیٹر امر جیت ملہوترا نے اس حوالہ سے کہا کہ ’’ہم تین سو سال سے یہاں رہ رہے ہیں۔ ہمارے آباو اجدا یہاں پیدا ہوئے اور یہاں انتقال کر گئے۔ ہم پاکستان میں مکمل طور پر محفوط ہیں اور اپنا کاروبار کر رہے ہیں۔ ہمیں فخر ہے کہ ہم پختون اور پاکستانی ہیں۔ ہمارے اپنے مسلمان بھائیوں سے غم و خوشی کی رسوم قائم ہیں۔ ‘‘ بلدیو کمار کے انڈین چینلوں کو انٹریو کے بارے میں انہوں نے کہا کہ بلدیو نے یہ انٹرویو یا تو سستی شہرت کے لیے دیا ہے یا پھر بھارتی شہریت حاصل کرنے کے لیے۔
دوسری طرف بلدیو کمار کے بھتیجے راہول کمار نے کہنا ہیکہ ’’آباؤ اجدا دکے وقت سے ہم یہاں مقیم ہیں۔ ہمارا کاروبار ٹھیک چل رہا ہے۔ یہاں ہمیں کبھی محسوس نہیں ہوا کہ ہم اقلیت ہیں۔ مجھے پتا نہیں کہ چاچو نے ایسا قدم کیوں اٹھایا؟ ہم یہاں پیدا ہوئے ہیں اور یہاں مریں گے۔‘‘
بلدیو کمار کے بھائیوں تلک کمار (سابق تحصیل کونسلر) اورامرت نے کہا کہ ہمیں پاکستان میں مکمل تحفظ حاصل ہے۔ ہم یہاں پیدا ہوئے ہیں اور یہاں مریں گے۔ بلدیو کمار کی اس حرکت سے ہمارا کوئی تعلق نہیں۔پاکستان کے عوام سے والہانہ محبت رکھتے ہیں اوران کی طرف سے جو محبت ہمیں مل رہی ہے، اس کا تصور بھارت میں اقلیتوں کے ساتھ نہیں کیاجاسکتا۔
بلدیو کمار کا خاندان کئی دہائیوں سے بریکوٹ میں مقیم ہے۔ ان کے والد نانک چند مرحوم کو علاقہ کے لوگ عزت سے ’’بابوجی‘‘ کے نام سے پکارتے تھے۔ کیوں کہ ان کے بچے اور رشتہ دار بھی ان کو ’’بابو جی‘‘ مخاطب کرکے بلاتے تھے۔ جب بابو جی انتقال کرگئے، تو ان کی آخری رسومات میں مسلمانوں نے بڑی تعداد میں شرکت کی تھی۔
43 سالہ بلدیو کمار ایک عرصہ سے سوات میں شراب فروخت کرتا تھا۔ ان کو اس کے الزام میں کئی بار گرفتار بھی کیا گیا ہے۔ ان کے خلاف سوات کے مختلف تھانوں میں ایف آئی آر درج ہیں۔ وہ بلدیاتی حکومت میں ضلعی کونسلر بھی رہے۔ ان کی شادی کے موقعہ پر اس کے مسلمان دوستوں نے کئی دن تک اس کے اعزاز میں مختلف تقاریب کا انعقاد کیا تھا، جس میں روزانہ محفلِ موسیقی کی تقاریب بھی شامل تھیں۔سابق معاون خصوصی وزیر اعلیٰ ( آنجہانی ) سردار سرن سنگھ کے بیٹے اجے سورن سنگھ کا کہنا ہے کہ ’’بلدیو کمار کی بریت کے خلاف ہم نے ہائی کورٹ سے رجوع کیا ہے۔ ایک صوبائی وزیر کا قاتل کیسے ائیر پورٹ سے بھارت جاتا ہے اور بھارتی سفارت خانہ اس کو ویزا کیو جاری کیاہے؟ یہ ایک سوالیہ نشان ہے۔‘‘