باقی ماندہ دنیا میں بلدیاتی ادارے کامیابی سے چل رہے ہیں، اور اپنے عوام کو زندگی کی ضروری سہولیات مہیا کرنے میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ اُن قوموں کی ترقی، بلدیاتی اداروں کی مرہونِ منت ہے۔ مگر بدقسمتی بس اس ملک کی ہے کہ جمہوریت کے دعوے داروں نے اپنے ہی آئینی ادارے کو عضوئے معطل بنا کر رکھ دیا ہے۔ ہمارے عوامی نمائندوں میں سے کوئی بھی عوام کو اپنے ساتھ شریکِ اقتدار بنانے اور اختیارات کی نچلی سطح پر منتقلی کے حق میں نہیں۔ ہمارے منتخب نمائندے، مقامی حکومتوں (بلدیاتی اداروں) کے ساتھ دشمنوں جیسا سلوک کر رہے ہیں۔ وہ یہ نہیں چاہتے کہ عوام ان کی غلامی سے حقیقت میں آزاد ہوں۔ ہماری جمہوری حکومتوں میں کبھی بلدیاتی انتخابات نہیں ہوئے، جب کہ آمروں کے دورِ اقتدار میں بلدیاتی نظام کو کام کرنے کا موقع دیا گیا۔ ہاں، یہ ایک الگ ایشو ہے کہ بلدیاتی نظام کو فعال کرنے میں ان کے اپنے مقاصد اور مفاد پوشیدہ تھے۔ فیلڈ مارشل ایوب خان (مرحوم) نے پاکستان کے 1956ء کے پہلے آئین کو 1958ء میں منسوخ کر کے اس کی خالق اسمبلی کو گھر بھیج دیا۔ ایوب خان (مرحوم) نے اپنے اقتدار کو دوام بخشنے کے لیے "بیسک ڈیمو کریسی” (بی ڈی) کا نظام متعارف کرایا۔ بی ڈی ممبران اپنے ووٹوں کے ذریعے قومی، صوبائی اسمبلی ممبران اور صدرِ مملکت کا انتخاب کرتے تھے۔ ایوب خان (مرحوم) نے اکتوبر، نومبر 1964ء میں دوسری بار بی ڈی کے انتخابات کرائے۔ یہ اُن بلدیاتی اداروں کا کمال تھا کہ 1965ء کے انتخابات میں ایوب خان (مرحوم) 63 فی صد جب کہ محترمہ فاطمہ جناح نے صرف 36 فی صد ووٹ حاصل کیا۔
اس طرح جنرل ضیاء الحق (مرحوم) نے 1979ء میں اقتدار پر قبضہ کے بعد 1979ء اور 1983ء میں بلدیاتی انتخابات کرائے جس کا مقصد اپنے اقتدار کو دوام بخشنا تھا۔ جنرل ضیاء الحق مرحوم کے انتقال کے بعد جتنی بھی جمہوری حکومتیں اقتدار میں آئیں، انہوں نے اس آئینی ادارے کے ساتھ کھلواڑ کرتے ہوئے بلدیاتی انتخابات کرانے سے گریز کیا۔
نومبر 1999ء میں جنرل پرویز مشرف نے اقتدار پر قبضہ کیا، تو انہوں نے نیا بلدیاتی نظام متعارف کرایا، اور 2001ء میں ان نئے قوانین کے تحت ایک بار پھر بلدیاتی انتخابات کرائے۔ نئے بلدیاتی نظام میں مقامی حکومتوں کو اختیارات حاصل تھے جو نچلی سطح پر اختیارات منتقل کرنے کا حقیقی نظام تھا۔
مشرف کے دورِ اقتدار میں دوسری بار بلدیاتی انتخابات 2005ء میں کرائے گئے اور اس کے بعد جو بھی جمہوری حکومت آئی، بلدیاتی انتخابات سے پہلو تہی کرتی رہی۔ بعد میں آنے والی جمہوری حکومت نے سپریم کورٹ کے کہنے اور ڈنڈے کے زور پر انتخابات کرائے، لیکن اس جمہوری ادارے کو ناکارہ بنانے کے لیے بلدیاتی نظام میں من پسند ترامیم کرائیں۔ صوبہ خیبر پختونخوا کی حکومت نے اگرچہ اپنے بلدیاتی اداروں کو تھوڑے بہت اختیار دیے بھی، لیکن اس کے ساتھ مقامی حکومتوں کی راہ میں ایسے روڑے اٹکائے کہ وہ اپنے فرائض احسن طریقے سے انجام نہیں دے سکتی تھیں۔ خیبر پختونخوا کی حکومت نے بلدیاتی اداروں سے اختیارات لینے کے لیے 2013ء کے بلدیاتی ایکٹ میں ترامیم کرائیں۔ نتیجتاً ضلعی حکومتوں کو ختم کیا گیا اور صرف تحصیل اور ویلج کونسلوں کو رہنے دیا گیا۔ اس کے باوجود صوبائی حکومت بلدیاتی انتخابات سے کنی کترا رہی ہے۔ خیبر پختونخوا کی صوبائی حکومت کے سینے میں ان ترامیم سے ٹھنڈ نہیں پڑی، تو اسمبلی میں اپوزیشن کے شور شرابے اور احتجاج کے باوجود ایک اور ترمیمی بِل پاس کردیا، جس میں بلدیاتی اداروں کے اختیارات ضلع کے ڈی سی، ٹی ایم اوز اور اے ڈیز بلدیاتی کو تفویض کرادیے۔ اس ترمیم سے ڈی سی کو ضلعی کونسل اور ضلعی ناظم کے، ٹی ایم اُوز کو تحصیل ناظم اور تحصیل کونسل کے، اور اے ڈیز کو ولیج کونسل ناظم اور ولیج کونسل کے اختیارات حاصل ہوں گے۔ یہ تینوں اپنی مرضی سے تمام ترقیاتی فنڈز استعمال کرسکیں گے، جن میں انہیں ایم این ایز اور ایم پی ایز کا تعاون حاصل ہوگا۔ یوں صوبہ خیبر پختونخوا کی حکومت نے بلدیاتی نظام میں ترمیم کرکے اپنے منھ پر کالک مل دیا۔
صوبائی حکومت کے اس اقدام سے تحریک انصاف اور عمران خان کے اقتدار کو نچلی سطح پر منتقلی کے دعوے بس دعوے ہی رہ گئے ہیں۔ تحریک کی مقامی سطح، ضلعی، صوبائی، مرکزی سطح پر یا عمران کے اقتدار سے پہلے کی ہر تقریر میں آپ کو اقتدار کی نچلی سطح پر منتقلی اور بلدیاتی اداروں کو فعال بنانے کے دعوے سننے کو ملیں گے، لیکن اس کے باوجود تحریکِ انصاف اپنے اقتدار میں بلدیاتی اداروں کے ساتھ یہ کھلواڑ کر رہی ہے، جس کے سبب بلدیاتی انتخابات ایک خواب بن کر رہ گئے ہیں۔
صوبائی حکومت کے اس اقدام پر مجھے محسن احسان کا یہ شعر یاد آیا کہ
درِ قفس پہ رہائی کے بعد بیٹھا ہوں
فلک کو دیکھوں یا اپنے بریدہ پَر دیکھوں
قوموں کی ترقی میں ان کی حکومت اور حکمرانوں کا کلیدی کردار ہوتا ہے، لیکن ہمارے حکمرانوں کی ترجیح ملک و قوم کی ترقی نہیں بلکہ ذاتی مفادات ہوتے ہیں۔ وہ قانون سازی اور آئینی ترامیم اپنی من مرضی اور اپنے مفادات کو تحفظ دینے کے لیے کرتے ہیں۔ حکمران کو حکمتِ عملی تخلیق کرتے وقت اس پر سوچ بچار کرنا چاہیے اور کسی بھی حکمتِ عملی کو باہمی مشاورت کے بعد اپنانا چاہیے۔ ہمارے حکمران حکمتِ عملی بناکر اسے اپنانے کے بعد ہی اس پر غور و خوص شرع کرتے ہیں جس کے نتیجہ میں ڈھیر ساری حکمتِ عملیاں ناکامی سے دوچار ہوا کرتی ہیں۔ ان میں ایسے پہلو اور مشکلات اُبھر کر سامنے آتی ہیں، جن پر عمل در آمد کرنا ناممکن ہوتا ہے۔ پاکستان میں ہر آنے والی حکومت اپنی پیشرو حکمرانوں کی حکمتِ عملی کی مخالفت کرتی ہے، اور ان کے مذکورہ اختلافات باعثِ برکت نہیں ہوتے۔ ہمارے حکمرانوں کی کوشش ہوتی ہے کہ ہر ترقیاتی منصوبے پر اپنے نام کی تختی لگواتے رہیں۔ جب تک ہمارے حکمرانوں کا یہ نظریہ تبدیل نہیں ہوگا، ہمارے قومی وسائل ضائع ہوتے رہیں گے۔
وزیر اعظم عمران خان اور تحریک انصاف کے پیروکار سن لیں کہ تبدیلی ایسے نہیں آتی۔
………………………………………….
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔