نوحہ کناں

اپنے استادِ محترم امجد علی سحابؔ کے ساتھ لکھنے کے معاملے پر نوک جھونک ہوتی رہتی ہے ۔ مَیں اپنے جاب اور پڑھائی کے بہانے کرتا رہتا ہوں، لیکن اصل میں بات یہ ہے کہ اس ملک میں اب لکھنے لکھانے کو بچا ہی کچھ نہیں۔ دل اُچاٹ ہوجاتا ہے جب دیکھتا ہوں کہ کس طرح 70 سالوں میں ایک مخصوص طبقے نے اس ملک کو ہمیشہ جوتے کی نوک پر رکھا۔ خاص کر پچھلے ایک سال میں اس کا جو حشر کیا گیا، اس کی تو مثال نہیں ملتی کہ کس طرح ایک گزار حال ملک جو کہ ترقی پذیر ممالک میں سبقت لیے ہوئے تھا، کو ذاتی پسند و ناپسند کی وجہ سے پیچھے دھکیل دیا گیا۔
لکھنے کو دل بہت کرتا ہے، لیکن جب غلام بلور کی تصویر دیکھتا ہوں، تو دلبرداشتہ ہوجاتا ہوں۔ ان کی آنکھیں نوحہ کناں یہ سوال لیے پھرتی ہیں کہ آپ تو ہمارے محافظ تھے، آپ کو ہمارا قاتل کس نے بنایا؟ وہ درد بھری آواز میں گلہ کرتا پھر رہا ہے کہ ہمیں بتا دیتے کہ الیکشن نہ لڑو، سیاست نہ کرو، ہم چھوڑ دیتے، آپ مارنے پر اُتر آئے!
دل تو یہ بھی چاہتا ہے کہ پوری دنیا کو چیخ چیخ کر آگاہ کروں کہ ہمارے ہاں 32 کا ہندسہ چونسٹھ 64 پر کس طرح بھاری پڑتا ہے۔ الخوارزمی اور (گاز) کی روحیں تو قبروں میں تڑپی ہوں گی جب انہیں پتاچلا ہوگا کہ 32 نے 64 کو شکست دی۔ یہ ہمارے ملک کے ایوانِ بالا کا حال ہے جہاں سے غلاظت اور تعفن کی بدبو پورے ملک میں پھیل چکی ہے۔
پوری دنیا کو یہ بھی پتا ہے کہ دو منتخب نمائندوں کو جعلی کیس میں بند کیا گیا ہے، اور سپیکر بھی اوپر سے حکم ملنے کی وجہ سے ان کو قدرے اجلاس میں بلانے کی زحمت تک نہیں دے سکتا۔ اور تو اور ایک سیکورٹی سٹیٹ میں رہی سہی کسر اب پولیس پوری کررہی ہے، جو پوری آب و تاب سے چارسدہ قاتلوں کی پشت پناہی، ساہیوال خاندان اور بے چارے معذور صلاح الدین کا خون لیے پھر رہی ہے کہ ’’خبردار، یہ ہمارے باپ کا ملک ہے۔ ہم جو چاہیں، جسے مارنا چاہیں، سب کر گزریں گے۔‘‘ کیوں کہ انصاف اور چیف جسٹس یہاں سوئے ہیں۔ ’’باپ‘‘ سے یاد آیا کہ اب تو وزیراعظم اپنے باپ کا پیسا بھی لوگوں کو دھڑا دھڑ معاف فرما رہا ہے۔ ان کٹھ پتلیوں کا تماشا لگاکے پوری قوم کا تماشا بنا دیا گیا ہے ۔
پہلے تو دل میں یہ بات آتی کہ یار ہو نہ ہو اپنی موت سے پہلے سویلین بالادستی ضرور دیکھیں گے، لیکن اب تو یہ یقین پختہ ہو چلا ہے کہ آئندہ نسلیں بھی ا ن کے مزارع رہیں گی۔ ہماری نوجوان نسل کی بھی یہ بات سر کے اوپر سے گزر رہی ہے، ان کو یہ خیال نہیں آتا کہ ہمارا حق کون سا ہے، اسے مار کون رہا ہے، اس کے لیے لڑنا بھی پڑے گا کہ نہیں، ایسے نہیں ملا تو چھین کے کیسے لیا جائے گا؟ ہر وقت یہ خوف اور دہشت کے سائے میں رہتے ہیں۔ اس ماحول میں ان کا دم بھی نہیں گھٹتا کہ یہ ملک تو آزاد ہوا تھا، تاکہ سکون کی سانس لے سکیں۔ ہم تو بس غلام ابن غلام چلے آرہے ہیں ۔ ہمارے ہاں تو ایک وائسرائے ایسی پریس کانفرنس کرتا ہے کہ چاہے صدر، وزیر اعظم نے کچھ بھی بولا ہو، یا عوام کیا سوچ رہے ہوں، یہ یک دم اپنی پالیسی جاری کرتے ہیں اور مجال ہے کہ کوئی انکار کرے! اب اگر اسی بات پر کوئی تنقید کی کوشش کرے، تو آپ اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیں کہ اس کے ساتھ کیا ہوتا ہے؟ ریاست کے اندر ریاست کی بات کا اندازہ آپ اس سے بخوبی لگا سکتے ہیں کہ ہر ملک کا ایک نعرہ ہوتا ہے جیسا کہ جئے بنگلہ، گاڈ بلیس امریکہ وغیرہ وغیرہ، لیکن پاکستان میں آپ کو دو نعرے لگانے پڑتے ہیں ورنہ آپ غدار، اور وہ یہ کہ پاکستان زندہ باد اور ایک مخصوص ادارہ زندہ باد۔ ارے بھئی، جب پاکستان زندہ باد ہوگیا، تو اس کے سبھی ادارے زندہ باد ہوگئے۔ یہ کہانی بہت پرانے وقت سے چلی آ رہی ہے۔ 1947ء ہی سے اس ملک کے نظام کا درست سمت میں تعین نہیں کیا گیا ہے ۔ یہ بہت لمبی کہانی ہے کہ کس موڑ پر کس نے اس نظام کے ساتھ کیا کھلواڑ کیا، لیکن اس پر بات اگلی نشست میں، اِن شااللہ!

……………………………………………………………….

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔