شاید یہ مصرع شاعر عبدالستار بمبارؔ کا ہے کہ
دَ مات او دَ رُوغ لوخی دَ ٹنگہ پتہ لگی
اس مصرع کی تشریح ایک حضرت نے یوں فرمائی کہ کمہار جب بڑی مہارت سے گوندھی ہوئی مٹی کو اپنے جادوئی ہاتھوں سے برتن کی شکل دیتا ہے اور اس کے بعد برتن کو آگ کے شعلوں میں رکھ کر پکانے کے عمل سے گزار کر تیار کر لیتا ہے، تو آخر میں برتنوں کی صحت چیک کرنے کی غرض سے ایک عجیب حرکت کرتا ہے۔ وہ دو برتنوں کو اٹھا کر، کان کے قریب لے جا کر آہستگی سے آپس میں ٹکراتا ہے۔ نتیجتاً جس برتن کی آواز سماعت سے ٹکراتی ہے، اُسے صحیح سلامت قرار دے کر قرینے سے ایک دوسرے کے اوپر رکھتا جاتا ہے۔ اس عمل میں جس برتن کی آواز سماعت سے نہیں ٹکراتی، وہ ٹوٹا ہوا ہوتا ہے۔ دوسرے ہی لمحے اسے بے کار قرار دے کر زمین پر مار دیا جاتا ہے اور ٹکڑوں میں تقسیم کر دیا جاتا ہے۔
درجِ بالا تشریح کے بعد نہ چاہتے ہوئے بھی آج سے بیس پچیس سال پہلے مجھے بمبارؔصاحب کا معترف ہونا پڑا تھا۔ بعد میں ان کی ’’ہزل گوئی‘‘ سماعت پذیر ہوئی، تو میرے تو چودہ طبق روشن ہوگئے۔ بایں ہمہ محولہ بالا مصرع کی قدر اپنی جگہ برقرار ہے۔ مذکورہ بالا مصرع کو اگر آج کل کے شعرا پر محمول کیا جائے، تو بیشتر ’’متشاعر‘‘ ہیں۔ اس برتن کی طرح جس کی آواز سماعت سے نہیں ٹکرا پاتی۔ بخدا، جب بھی ایسے متشاعر حضرات کا کوئی شعری مجموعہ اٹھاتا ہوں، تو ورق گردانی کرتے سمے درمیان میں سے کتاب کھول کر اک آدھ شعر پڑھ کر ہی پتا چل جاتا ہے کہ برتن کی صحت کیسی ہے؟
آمدم برسرِ مطلب، آج کی نشست جس شخصیت کے نام ہے، وہ روزِ اول سے خود کو ایک استاد کی حیثیت سے منوا چکے ہیں۔ پروفیسر عطاء الرحمان عطاءؔ نے ایس پی ایس کالج میں حالیہ منعقدہ ایک ادبی پروگرام میں ان کی تعریفوں کے پُل باندھنے کے بعد آخر میں انہیں چھیڑنے کی غرض سے کہا کہ دوستوں کی محفل میں ہم انہیں ’’سوات کا قومی شاعر‘‘ کہہ کر بلاتے ہیں۔جب کہ میں سمجھتا ہوں کہ مولانا حالیؔ کا تخلیق کردہ یہ شعر حالیؔ کے بعد آپ ہی کی شخصیت پر صادق آتا ہے، ملاحظہ ہو:
مجھے تنہا نہ سمجھیں اہلِ لاہور
مَیں اپنی ذات میں ایک انجمن ہوں
مصرعِ اولیٰ میں ’’لاہور‘‘ کی جگہ ’’پختونخوا‘‘ کی تحریف حضرتِ قیسؔ جیسی شخصیت کے لیے بے جا نہ ہوگی۔
قیسؔ صاحب کا حالیہ شائع شدہ شعری مجموعہ ’چغجئی‘‘ بلاشبہ خاصے کی چیز ہے۔ اسے کھول کر جیسے ہی اِس شعر پر نظر پڑتی ہے، تو بے ساختہ منھ سے کلمۂ تحسین ’’واہ‘‘ نکلتا ہے، شعر ملاحظہ ہو:
دَ سوات دَ ہر موسم میوہ سوغات دی خو ملگرو
چغجئی دَ گبینہ سرہ خوڑل ئی عجیبہ دی

محمد حنیف قیسؔ کا حالیہ زیورِ طبع سے آراستہ ہونے والا شعری مجموعہ "چغجئی”۔ (فوٹو: امجد علی سحابؔ)

قارئینِ کرام! آج کی نشست میں کتاب پر تأثر دینے کی جگہ اگر قیسؔ صاحب کی معاشرتی اعانت پر تھوڑی سی روشنی ڈالی جائے، تو اس سے بہتر بات اور کیا ہوگی!
کتنے لوگ جانتے ہوں گے کہ قیسؔ صاحب جتنے اچھے شاعر ہیں، اس سے کئی گنا زیادہ اچھے انسان ہیں۔ عرصہ سے پشتو ادب کی بلامعاوضہ خدمت کا بیڑا اٹھائے ہوئے ہیں۔ شعیب سنز پبلشرز کی چھتری کے نیچے جتنی پشتو کتابیں زیورِ طبع سے آراستہ ہوتی ہیں، آپ ان کی پروف ریڈنگ روزِ اول سے بلامعاوضہ کرتے چلے آ رہے ہیں۔ اب تک ایک اندازے کے مطابق آپ ایک سو سے زائد کتب، جن میں بقدرِ نمک نثر اور بیشتر شعری مجموعے ہیں، کی نوک پلک سنوار چکے ہیں۔ سوات میں پشتو املا پر عبور رکھنے والوں کو ایک ہاتھ کی انگلیوں پر گنا جاسکتا ہے، جن میں سے ایک قیسؔ صاحب ہیں۔ کتابوں کی پروف ریڈنگ کرتے سمے آپ املا کے ساتھ ساتھ باقاعدہ اصلاح کرکے بسا اوقات کئی متشاعر حضرات کو شعرا کی صف میں لاکھڑا کر دیتے ہیں۔ اس کے علاوہ سوات میں جتنے پشتو مجلے (جن کی تعداد درجنوں میں ہے) یا سکول کالج کے سالنامے (جن میں ’’ایلم‘‘ جہانزیب کالج، ’’ماندور‘‘ افضل خان لالا کالج مٹہ، اور ’’دی ایگلٹس‘‘ ایس پی ایس کالج قابلِ ذکر ہیں) شائع ہوتے تھے، ان کے پشتو حصہ کی ایڈیٹنگ اور پروف ریڈنگ آپ کے ذمے ہوتی تھی۔ کلیاتِ زیتون بانو (افسانوں) کی نوک پلک بھی آپ ہی نے سنواری۔
قیسؔ صاحب کے اب تک پانچ شعری مجموعے زیورِ طبع سے آراستہ ہوچکے ہیں، جن کے نام بالترتیب کچھ یوں ہیں: ’’زارہ چاودی مزلونہ‘‘، ’’نوی نعتونہ‘‘، ’’مرغ زار‘‘، ’’بلہ شونٹئی‘‘ اور ’’چغجئی‘‘۔ آپ’’پختو ادبی کاروان سوات‘‘ کے صدر رہ چکے ہیں، مگر پچھلے پانچ چھے سال آپ پر سوات کے شعرا و ادبا بطورِ خاص نوجوانوں نے قدغن لگائی ہوئی ہے کہ آپ جیسی ہمہ جہت شخصیت پر تمام ادبی تنظیموں کا یکساں حق ہے، اس لیے آپ کو کسی ایک تنظیم کی خاطر خود کو وقف کرنے کا کوئی حق نہیں۔ انکار نامی لفظ چوں کہ آپ کی لغت میں نہیں، اس لیے آپ
یہ جو مجھ پر نکھار ہے سائیں
آپ ہی کی بہار ہے سائیں
آپ چاہیں، تو جان بھی لے لیں
آپ کو اختیار ہے سائیں
کے مصداق اپنا اختیار ذکر شدہ چاہنے والوں کے ہاتھ دے چکے ہیں۔
لگے ہاتھوں اک اچھی خبر ملاحظہ ہو، کل یعنی بروزِ اتوار، بمورخہ 25 اگست 2019ء دوپہر دو بجے ’’دستار ادبی او کلتوری ٹولنہ خوازہ خیلہ سوات‘‘ نے خوازہ خیلہ ماڈل سکول ٹیٹا بٹ میں آپ کے نئے شعری مجموعہ ’’چغجئی‘‘ کی تقریب رونمائی کا اہتمام کیا ہوا ہے۔ قیسؔ کے چاہنے والوں کو دعوت ِ عام ہے۔ واضح رہے کہ مذکورہ تقریب کی صدارت پروفیسر اباسین یوسف زئی کریں گے، جب کہ مہمانِ خصوصی بابائے قطعہ حضرتِ عبدالرحیم روغانیؔ ہوں گے۔ یہ اپنی نوعیت کی واحد تقریب ہے جس میں مقالوں کی بھرمار نہیں ہوگی۔ مقالہ پڑھنے والوں میں سے ایک استاد عطاء اللہ جان ایڈوکیٹ صاحب ہوں گے اور دوسرے صلحِ کُل پروفیسر عطاء الرحمان عطاؔ صاحب ہوں گے۔ بُلبلِ سوات ظفر علی نازؔ، فضل معبود شاکرؔ، شمس الاقبال شمسؔاور احسان اللہ شاہدؔ اس پُروقار تقریب میں اپنا کلام پیش کریں گے۔ نیز محمد ابراہیم شبنمؔ اور لائق زادہ لائقؔ میزبانی کے فرائض انجام دیں گے۔ جاتے جاتے ’’چغجئی‘‘ سے چند اشعار ملاحظہ ہوں، یار زندہ صحبت باقی!
دی کلی کی واعظ خلق تیارو کی دی ساتلی
لیدلی چرتہ نہ دی دے خوارانو رنڑاگانی
دَ مڑو سر تہ ڈیوی مہ بلوئی
زئی چی دَ ژوند لار کی ڈیوی کیگدو
ستا قد سرہ سیالئی کی لہ یو بلہ مخکی کیگی
دے سروی، چنارونو، دے نخترو تہ تۂ گورہ
پہ پٹو سترگو پسی تلہ تاوان دے
لگ شانی خیال دی پہ رہبر ھم کوی
اَشنا دَ ملاکنڈ دَ سرہ چغہ کڑہ چی قیسہؔ
پہ خکتہ چی رازے نو شلتالان درسرہ راوڑہ
سواتہ، ستا دَ اُوڑی غیگ دَ میوو ڈکہ
خو ستا ژمی کی جدا خواگہ پراتہ دی
قیسہؔ ستا غزل بہ زڑونو تہ کوزیگی
ستا پہ ژبہ کی چی دا خواگہ پراتہ دی

………………………………………………………..

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔