٭ طرفینِ تشبیہ (مشبہ، مشبہ بہ) حسی متعلق بہ شامہ(سونگھنا) :۔ بقولِ علیؔ
علی بھرا ہے یہ عطرِ بہشت شیشے میں
تصور، عرقِ روئے یاد، دل میں ہے
یاد کے عرق کی بوکو عطرِ بہشت سے تشبیہ دی گئی ہے، جس کا تعلق سونگھنے سے ہے۔
قدسیؔ کا ایک شعر ہے:
لگایا میں نے جو شب زُلفِ پُرشکن کو ہاتھ
شمیم مشک لگی گلشنِ ختن میں ہاتھ
زلف کو مشک کے ساتھ تشبیہ دی گئی جس کا ادراک سونگھنے سے ہوتا ہے۔
ہونٹوں سے شراب کی مہک آتی ہے
باتوں سے شباب کی مہک آتی ہے
پہلو سے چھوگئی تھی وہ جانِ بہار
پہلو سے گلاب کی مہک آتی ہے
٭ طرفینِ تشبیہ حسی متعلق بہ ذائقہ (چکھنا):۔ اس حوالہ سے مومنؔ کا یہ شعر ملاحظہ ہو:
جھوٹی شراب اپنی مجھے مرتے دم تو دے
یہ آبِ تلخ شربتِ قندو نبات ہے
اس شعر میں محبوب کی جھوٹی شراب کو قندو نبات سے تشبیہ دی گئی ہے، جس کا تعلق ذائقے سے ہے۔بقولِ ذوقؔ
بدل گئی ہے حلاوت سے تلخئی دارو
شرابِ تلخ بھی ہے میکشوں کو شکر و شیر
ٹوٹے تری نگہ سے اگر دل حباب کا
پانی بھی پھر پئیں، تو مزہ دے شراب کا
٭ طرفین تشبیہ حسی متعلق بہ لامسہ (چھونا):۔ بقولِ ملقؔ
پیٹ نرمی سے صورتِ مخمل
صاف مانند تختۂ صندل
پیٹ کو نرمی میں مخمل سے تشبیہ دی گئی ہے، اور صفائی میں تختۂ صندل سے اور اس کا تعلق چھونے سے ہے۔
بقولِ ذوقؔ
یہ خارِ دشت بھی نرمی میں خوابِ مخمل ہے
ہر ایک تارِ رگِ سنگ بھی ہے تارِ حریر
بقولِ میرؔ
جس کفِ پاکو برگِ گل ہے خار
حیف ہے، خار سے وہ ہووے فگار
٭ طرفینِ تشبیہ عقلی:۔ طرفینِ تشبیہ عقلی وہ ہیں جو حواسِ خمسہ سے دریافت نہ ہوں بلکہ عقل سے معلوم ہوں۔ اس کی تین صورتیں ہیں، ایک دونوں عقلی جیسے علم کو زندگی اور جہالت کو موت سے تشبیہ دینا۔ حالیؔ کے بقول
وہ طب جس پہ غش ہیں ہمارے اطبا
سمجھتے ہیں جس کو بیاضِ مسیحا
بتانے میں ہے خجل جس کے بہت سا
جسے عیب کی طرح کرتے ہیں اخفا
علمِ طب کو عیب سے تشبیہ دی گئی ہے۔ ان دونوں کو معلوم کرنے میں حواس کو دخل نہیں بلکہ عقل سے معلوم ہوتے ہیں۔
نطق سے میرے ہے طبع سامعہ عاشق مزاج
شوخیاں مضموں میں ہیں نارِ حسیناں کی طرح
’’شوخیاں‘‘ مشبہ اور ’’نارِ حسیناں‘‘ مشبہ بہ اور یہ دونوں عقلی ہیں۔
دوسری وہ جس میں مشبہ، عقلی اور مشبہ بہ حسی ہو، مثلاً: خواجہ میر دردؔ کے بقول
زندگی ہے یا کوئی طوفان ہے
ہم تو اس جینے کے ہاتھوں مرچلے
’’زندگی‘‘ مشبہ عقلی ہے اور ’’طوفان‘‘ مشبہ بہ حسی ہے۔
بس اگلے فسانے فراموش کردو
تعصب کے شعلے کو خاموش کردو
تعصب مشبہ عقلی ہے اور شعلہ مشبہ بہ حسی ہے۔
بقولِ غالبؔ
پاتے نہیں جب راہ تو چڑھ جاتے ہیں نالے
رُکتی ہے مری طبع تو ہوتی رواں اور
’’طبع‘‘ مشبہ عقلی اور ’’نالے‘‘ مشبہ بہ حسی ہیں۔
آگئی دل میں ناگہاں بیدار
نگہ اُس کی خدنگ کی مانند
’’نگہ‘‘ مشبہ عقلی اور ’’خدنگ‘‘ مشبہ بہ حسی ہے۔
تیسری صورت وہ ہے جس میں مشبہ حسی اور مشبہ بہ عقلی ہو، مثلاً:
بات کرنے میں رقیبوں سے ابھی ٹوٹ گیا
دل بھی شاید اُسی بد عہد کا پیماں ہوگا
اس شعر میں دل کو پیماں سے تشبیہ دی گئی ہے۔ ’’دل‘‘ مشبہ حسی ہے اور ’’پیمان‘‘ مشبہ بہ عقلی ہے۔
پنڈت دیا شنکر نسیمؔ کے بقول:
جب نامِ خدا جواں ہوا وہ
مانند نظر رواں ہوا وہ
یہاں ’’وہ‘‘ سے مراد تاج الملوک ہے جو مشبہ حسی ہے اور ’’نظر‘‘ مشبہ بہ عقلی ہے۔
بقولِ مرزا دبیر:
ان شیروں کی شمشیریں ہیں، یا قوتِ غفار
بہ میان میں خوابیدہ اجل خوف سے بیدار
’’شمشیر‘‘ مشبہ حسی اور’’ قوت‘‘ غفار مشبہ بہ عقلی۔
……………………………………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔