ہم پہلے پیر صاحب پگاڑا کی پیشین گوئیاں سنتے تھے، جب کہ موجودہ سیاست دانوں میں شیخ رشید ایک ایسی "شخصیت” ہیں جو اپنی پیشین گوئیوں کے ساتھ بے پرکی اڑاتے کے ماہر ہیں۔ شائد ہی کبھی ان پیشین گوئیوں میں سے اک آدھ ہی سچ ثابت ہوئی ہو، لیکن ان کا کام تو صرف پیشین گوئی کرنا ہے۔ ہاں، ایسے لوگوں کے لیے جن کی اقتدار کے ایوانوں تک رسائی، اسٹیبلشمنٹ اور خلائی مخلوق کے ساتھ مضبوط روابط ہوں، پیشین گوئی کرنا ان کا محبوب مشغلہ ہوتا ہے۔
گذشتہ دنوں پاکستان مسلم لیگ نون کی نائب صدر مریم نواز نے ایک پریس کانفرنس میں احتساب عدالت کے جج ارشد ملک کی مبینہ ویڈیو اور آڈیوجاری کی۔ مریم نواز کے مطابق "جج ارشد ملک نے ضمیر کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے یہ اعتراف کیا ہے کہ نوازشریف کے خلاف کوئی ثبوت نہیں تھا۔ مَیں نے انہیں سزا، دباؤ کے تحت دی ہے۔”
مریم نواز کی ویڈیو پر ہر طرف سے لے دے ہو رہی ہے۔ مخالفین ویڈیو کو جعلی قرار دیتے ہیں۔ حکومت اور بعض سیاسی رہنما، عدلیہ سے تحقیقات کا مطالبہ کر رہے ہیں جب کہ مسلم لیگ نون کے رہنما اور حمایتی ویڈیو کو اصلی قرار دیتے ہوئے نواز شریف کی سزا کالعدم قرار دینے کا مطالبہ کرتے ہیں۔ مریم نواز کی ویڈیو پر وفاقی وزیر ریلوے شیح رشید نے پیشین گوئی کرتے ہوئے کہا کہ "مریم نواز مسلم لیگ نون کے لیے راجہ پورس کی ہتھنی ثابت ہوگی۔ چوں کہ شیخ صاحب وفاقی وزیر ہیں۔ ان کے سرکاری اداروں، مسلم لیگ نون اور پاکستان پیپلز پارٹی کے ارکان سے رابطے ہوں گے۔ اسٹبلشمنٹ سے بھی تعلقات ہوں گے اور خلائی مخلوق تو ان کی اپنی ہی ہے۔ ان سے ڈھیر ساری معلومات حاصل ہوتی ہوں گی۔ اس لیے تو شیخ رشید صاحب نے راجہ پورس کی ہتھنی والی پیشین گوئی فرمائی ہے۔ ہم بھی سنتے اور پڑھتے آئے ہیں کہ ہندوستان کے راجہ پورس کو سکندر مقدونی کے مقابلے میں اپنے ہی ہاتھیوں کی وجہ سے شکست ہوئی تھی۔ پڑھتے وقت تو ہم چھوٹے تھے، لیکن اب یہ باتیں ذہین مانتا ہے کہ ایسا ہی ہوا ہوگا۔ کیوں کہ اُس وقت ہندوستان میں ہاتھی، جنگ کی ایک اچھی سواری سمجھا جاتا تھا، جیسے آج کل بکتر بند یا بلٹ پروف گاڑی ہے۔ انہیں اسی طرح سدھایا جاتا تھا کہ اُن کا میدانِ جنگ سے بھاگ جانا ناممکن ہوتا تھا۔ بہرحال یہ تحقیق تو تاریخ دان کریں گے کہ واقعی راجہ پورس کو شکست اپنے ہاتھیوں کی وجہ سے ہوئی تھی یا کوئی اور وجہ تھی؟ دوسری طرف مریم نواز ن لیگ کے لیے راجہ پورس کی ہتھنی ثابت ہوتی ہے یا نہیں؟ یہ وقت آنے پر پتا چلے گا، لیکن وفاقی وزیرِ ریلوے حضرتِ شیخ رشید صاحب کی کارکردگی کو دیکھتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ وہ تحریک انصاف اور محکمۂ ریلوے کے لیے راجہ پورس کے ہاتھی ثابت ہونے جا رہے ہیں۔ اگر یقین نہیں آتا، تو آئیے وزیر کے محکمۂ ریلوے کی کارکردگی پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔
یکم جون کو لاہور یارڈ میں ٹرین پٹڑی سے اُتر گئی، تین جون کو عید سٹیشن ٹرین لالا موسیٰ سٹیشن کے قریب ڈی ریل ہوئی، سات جون کو اسلام آباد ایکسپریس گجرات کے قریب موٹر سائیکل سے ٹکرا گئی، آٹھ جون کو کراچی ڈویژن میں بولان ایکسپریس کو حادثہ پیش آیا، پندرہ جون کو سندھ ایکسپریس سکھر یارڈ میں پٹڑی سے اُتر گئی، سولہ جون کو مال بردار ٹرین روہڑی سٹیشن کے قریب پٹڑی سے اُترگئی، اٹھارہ جون کو ملتان ڈویژن میں جناح ایکسپریس کی ڈائننگ کار کو سٹیشن کے قریب آگ لگ گئی، اُسی روز کوئٹہ ڈویژن میں مال بردار ٹرین پٹڑی سے اُتر گئی، اُنیس جون کو کراچی ڈویژن میں رحمان بابا ایکسپریس مال بردار ٹرین کی زد میں آگئی جس میں کئی انسانی جانوں کا ضیاع ہوا، بیس جون کو حیدر آباد سٹیشن کے قریب جناح ایکسپریس مال بردار ٹرین سے ٹکرا گئی جس میں ڈرائیور اور اسسٹنٹ ڈرائیور جان سے گئے، اکیس جون کو ہری پور کے قریب ایک کار راولپنڈی ایکسپریس کی زد میں آگئی، بائیس جون کو لاہور سٹیشن کے یارڈ میں کراچی جانے والی تیز گام کی بوگی پٹڑی سے اُتر گئی، تیس جون کو لانڈھی سٹیشن کے قریب جناح ایکسپریس کو حادثہ پیش آیا، چوبیس جون کو راولپنڈی ڈویژن میں موٹر سائیکل کوہاٹ ایکسپریس کی زد میں آگئی، اور ستائیس جون کو بدر ایکسپریس مسکار سٹیشن کے قریب ٹریکٹر ٹرالی سے ٹکرا گئی۔
قارئین، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ شیخ صاحب تحریک انصاف اور اپنے ہی محکمے کے لیے "راجہ پورس کے ہاتھی” ثابت ہونے والے ہیں۔ یادش بخیر، جب خواجہ سعد رفیق وزیر ریلوے تھے، تو عمران خان فرمایا کرتے تھے کہ حقیقی جمہوریت میں جب کوئی ٹرین حادثے کا شکار ہوتی ہے اور اس کی تحقیقات ہو رہی ہوں، تو وزیر کو استعفا دینا چاہیے۔
سوچتا ہوں اتنی بری کارکردگی پر عمران خان شیخ صاحب سے استعفا کیوں نہیں لیے رہے؟ واضح رہے کہ یہ وہی شیخ ہیں جنہیں عمران خان اپنا چپڑاسی بھی رکھنا گوارا نہیں کرتے تھے۔
…………………………………………………………………..
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔