ریاستِ سوات کے انتظامی اور عدالتی انفراسٹرکچر کے بارے میں تفصیل سے پہلے چند گزارشات پیش خدمت ہیں جو موضوع سے متعلق ہیں اور نہیں بھی۔ سب سے پہلے جو وضاحت ضروری سمجھتا ہوں وہ یہ ہے کہ میں نے ریاستی نظام کے بارے میں پڑھنے سے زیادہ دیکھنے پر انحصار کیا ہے اور اپنی یادداشت میں جو کچھ محفوظ رہ گیا ہے، اُسی کا ما حاصل پیش کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔ دوسری بات یہ ہے کہ بادشاہ صاحب کے دور کے بارے میں میری معلومات اس لیے نہ ہونے کے برابر ہے کہ میں مئی 1943ء میں پیدا ہوا اور جب میں چھے سال کا تھا، توبادشاہ صاحب کا دور ختم ہوگیا اور جناب والی صاحب کا دور شروع ہوچکا۔ مجھے انتقالِ تاج و تخت کے بارے میں بھی کچھ یاد نہیں، نہ اُس دن کے بارے میں کچھ جانتا ہوں۔ بعد میں جب شعور بیدار ہوا، تو کچھ کتابیں پڑھنے، کچھ اپنے مرحوم والد صاحب کے بتانے سے اور بعد میں ادغام تک اپنی ابزرویشن اور 1961ء سے 1969ء تک اس نظام کا ایک پرزہ ہونے کے کارن اچھی خاصی معلومات ذہن میں محفوظ ہوتی رہیں۔

ایک شام جب والی صاحب معمول کے مطابق کار میں جارہے تھے، تو افسر آباد میں اُن کو اپنی کار سے ایک نئی زیر تعمیر خشک پتھروں کی دیوار نظر آئی۔ انہوں نے عین ہمارے گھر کے قریب ہی کار رکوائی اور وہاں پر رہائش پذیر ایک فوجی افسر کو بلوا بھیجا۔ جب وہ افسر ان کے قریب آگیا، تو والی صاحب نے دیوار کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ان سے پوچھا کہ آپ نے اس شخص کے خلاف کوئی کارروائی کی ہے یا نہیں؟ افسر نے جواب دیا جناب یہ تو سول افسروں کا کام ہے۔ والی صاحب اس پر بہت غصہ ہوئے اور کہا کہ قانون کی عملداری پر نظر رکھنا سب کی یکساں ذمہ داری ہے۔

ایک شام جب والی صاحب معمول کے مطابق کار میں جارہے تھے، تو افسر آباد میں اُن کو اپنی کار سے ایک نئی زیر تعمیر خشک پتھروں کی دیوار نظر آئی۔ انہوں نے عین ہمارے گھر کے قریب ہی کار رکوائی اور وہاں پر رہائش پذیر ایک فوجی افسر کو بلوا بھیجا۔ جب وہ افسر ان کے قریب آگیا، تو والی صاحب نے دیوار کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ان سے پوچھا کہ آپ نے اس شخص کے خلاف کوئی کارروائی کی ہے یا نہیں؟ افسر نے جواب دیا جناب یہ تو سول افسروں کا کام ہے۔ والی صاحب اس پر بہت غصہ ہوئے اور کہا کہ قانون کی عملداری پر نظر رکھنا سب کی یکساں ذمہ داری ہے۔

ہماری زندگی کا سنہری دور (یعنی بچپن اور نوجوانی) اَفسر آباد سیدوشریف میں گزرا ہے، جہاں پر ریاست کے اعلیٰ سول اور فوجی افسروں کی رہائش گاہیں تھیں۔ اس کے علاوہ تحصیل بابوزیٔ کی دو اہم عدالتیں بھی ہمارے گھر کے قریب ہی تھیں، جن میں ایک آدھ بار کے علاوہ حاکم اور نائب وزیر جیسے عہدوں کے حامل افسر عدالت لگاتے تھے۔ ایک اور چشم دید واقعہ اس لیے پیش کر رہا ہوں کہ اس سے مراد کسی کا مذاق اُڑانا نہیں بلکہ یہ دکھانا مقصود ہے کہ ریاست کا ہر کارندہ جواب دہ تھا۔ اس کا تعلق کسی بھی شعبہ سے ہو، اُسے ریاست کے مفادات کا اس کے قوانین کے عملی نفاذ کا اہتمام کرنا اس کا اولین فریضہ تھا۔ ایک شام جب والی صاحب معمول کے مطابق کار میں جارہے تھے، تو افسر آباد میں اُن کو اپنی کار سے ایک نئی زیر تعمیر خشک پتھروں کی دیوار نظر آئی۔ انہوں نے عین ہمارے گھر کے قریب ہی کار رکوائی اور وہاں پر رہائش پذیر ایک فوجی افسر کو بلوا بھیجا۔ جب وہ افسر ان کے قریب آگیا، تو والی صاحب نے دیوار کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ان سے پوچھا کہ آپ نے اس شخص کے خلاف کوئی کارروائی کی ہے یا نہیں؟ افسر نے جواب دیا جناب یہ تو سول افسروں کا کام ہے۔ والی صاحب اس پر بہت غصہ ہوئے اور کہا کہ قانون کی عملداری پر نظر رکھنا سب کی یکساں ذمہ داری ہے۔
ریاست کے انتظامی افسران عدالتی امور بھی سرانجام دیتے تھے۔ اپنی حدود میں ریاستی قوانین کی بالادستی پر بھی مامور تھے۔ بعض فوجی بڑے عہدے کے حامل حضرات مخصوص علاقوں کے عدالتی مجاز افسر بھی ہوتے تھے۔
انتظامیہ کا بنیادی اہلکار تحصیلدار کہلاتا تھا۔ ساری ریاست تقریباً تینتیس تحصیلوں پر مشتمل تھی۔ چند تحصیلوں کو ملا کر ایک علاقہ تشکیل دیا جاتا تھا، اس کا افسر حاکم کہلاتا تھا۔ تحصیلدار اور حاکم اپنے اپنے تفویض شدہ یونٹ کے عدالتی افسر بھی تھے۔ تحصیلدار کے فیصلے کے خلاف اپیل حاکم کی عدالت میں کی جاتی تھی، لیکن اگر کوئی چاہتا، تو اپنا مقدمہ براہ راست حکمران ریاست کے حضور بھی سماعت کیلئے لگا سکتا تھا اور اس پر کسی قسم کی پابندی نہیں تھی۔

ساری ریاست تقریباً تینتیس تحصیلوں پر مشتمل تھی۔ چند تحصیلوں کو ملا کر ایک علاقہ تشکیل دیا جاتا تھا، اس کا افسر حاکم کہلاتا تھا۔ تحصیلدار اور حاکم اپنے اپنے تفویض شدہ یونٹ کے عدالتی افسر بھی تھے۔ تحصیلدار کے فیصلے کے خلاف اپیل حاکم کی عدالت میں کی جاتی تھی، لیکن اگر کوئی چاہتا، تو اپنا مقدمہ براہ راست حکمران ریاست کے حضور بھی سماعت کیلئے لگا سکتا تھا

ساری ریاست تقریباً تینتیس تحصیلوں پر مشتمل تھی۔ چند تحصیلوں کو ملا کر ایک علاقہ تشکیل دیا جاتا تھا، اس کا افسر حاکم کہلاتا تھا۔ تحصیلدار اور حاکم اپنے اپنے تفویض شدہ یونٹ کے عدالتی افسر بھی تھے۔ تحصیلدار کے فیصلے کے خلاف اپیل حاکم کی عدالت میں کی جاتی تھی، لیکن اگر کوئی چاہتا، تو اپنا مقدمہ براہ راست حکمران ریاست کے حضور بھی سماعت کیلئے لگا سکتا تھا

حاکم کے اوپر مشیر یا وزیر ملک، وزیر مال وغیرہ کی عدالتی تھیں۔ یہ بڑے افسر بھی عدالتی امور کے علاوہ انتظامی امور چلاتے تھے۔ اسی طرح فوج کے سب سے بڑے عہدے پر فائز سپہ سالار صاحب سید بادشاہ گل باچا بھی اپنے پورے دورِ نیابت میں کوہستان اور شانگلہ کے مقدمات سنتے تھے۔ تمام عدالتی فیصلوں کے ماخذ شریعت، رواج اور مختلف علاقوں کے اپنے ہی جرگوں کے مرتب شدہ ضابطوں پر مشتمل تھے۔ تحصیلدار عدالتی امور کے علاوہ اپنی تحصیل کی حدود میں امن وامان قائم رکھنے کے بھی ذمہ دار تھے۔ اس کے لیے ان کو مقامی پولیس اور فوج کی حسب ضرورت مدد حاصل تھی۔ وہ تحصیل کی حدود میں زیرِ تعمیر سرکاری سکولوں اور دیگر ریاستی تعمیرات کا معائنہ کرنے کے بھی پابند تھے، جس کے بارے میں حکمران سوات کے جاری کردہ فرامین آج بھی ریکارڈ پر موجود ہیں۔
عرضِ مدعا یہ ہے کہ عدالتی افسران ہی ریاست کے انتظامی افسران بھی تھے اور ان میں تخصیص کی کوئی صورت نہیں تھی۔ اپنی یادداشت سے مجھے جن تحصیلوں کے نام یاد ہیں وہ کچھ اس طرح ہیں کہ موجودہ ضلع کوہستان میں رانولیا، دوبیر، کرنگ، کندیا اور پٹن، ضلع شانگلہ میں لیلونئی، الپوریٔ، کانا، بشام، چکیسر، پورن، مارتونگ، ضلع بونیر میں گدیزی، سالارزیٔ، ڈگر، گاگرہ، چغرزیٔ، چملہ، امازی اور طوطالئے، ضلع سوات میں بریکوٹ، کبل، بابوزیٔ، چارباغ، خوازہ خیلہ، فتح پور، مٹہ، مدین، بحرین اور کالام اُن تحصیلوں کے نام جہاں مستقل حاکم تعینات تھے ڈگر، پٹن، چکیسر، بحرین، مٹہ اس کے علاوہ الپوریٔ، بریکوٹ اور طوطالئے میں بعض دور میں حاکم بھی رہ چکے ہیں۔ اس انفراسٹرکچر کے بنیادی یونٹ یعنی تحصیلدار کو ریاست کے افسر مال کی ذمہ داری بھی ادا کرنی پڑتی تھی اور ریاست کے محاصل کا حصول اور ان کو سیدوشریف تک پہنچانا بھی اُس کی ذمہ داری میں شامل تھا۔
کبھی کبھی میں سوچتا ہوں کہ ایک تحصیل سے کتنے لوگوں کی روٹی روزی لگی ہوئی تھی۔ تحصیل میں دن بھر ایک ہجوم سا لگا رہتا۔ فیصلے جلد اور موقعہ پر ہی ہوتے تھے۔ ہر تحصیل میں تین چار تعلیم یافتہ کلرک ہوتے تھے۔ پھر عدالت کے باہر عرضی نویس بھی کرسی میز لگا کر دوچار پیسے کمالیتا تھا۔ وہ ایک پیسہ فی درخواست محنتانہ لیتا تھا اور عرف عام میں ’’پیسہ ٹک‘‘ مرزا کہلاتا تھا۔ یہ لوگ عموماً بہت خوش نویس ہوتے تھے۔ ان ہی عرضی نویس سے حسب ضرورت خالی پوسٹ پر تحصیل کلرک کا تقرر کیا جاتا تھا۔ تحصیلدار کے پاس دو سرکاری اردلی ہوتے تھے۔ حاکم کے پاس اس سے زیادہ لوگ ملازم ہوتے تھے۔ وہ ایک سادہ اور عام فہم نظام تھا۔ لوگوں کا اپنا مرتب کردہ اور ان کے دسترس کے اندر، نہایت کم خرچ، آپ صرف ایک روپیہ کی ’’رحم درخواست‘‘ پر ریاست کے اعلیٰ ترین عدالت یعنی حکمرانِ سوات کے حضور اپنا مقدمہ خود پیش کرسکتے تھے۔ خود ہی اپنی وکالت کرسکتے تھے۔ ہم تو یہی کہہ سکتے ہیں کہ
خواب تھا جو کچھ کہ دیکھا جو سنا افسانہ تھا

عدالت کے باہر عرضی نویس بھی کرسی میز لگا کر دوچار پیسے کمالیتا تھا۔ وہ ایک پیسہ فی درخواست محنتانہ لیتا تھا اور عرف عام میں ’’پیسہ ٹک‘‘ مرزا کہلاتا تھا۔ یہ لوگ عموماً بہت خوش نویس ہوتے تھے۔ ان ہی عرضی نویس سے حسب ضرورت خالی پوسٹ پر تحصیل کلرک کا تقرر کیا جاتا تھا۔

عدالت کے باہر عرضی نویس بھی کرسی میز لگا کر دوچار پیسے کمالیتا تھا۔ وہ ایک پیسہ فی درخواست محنتانہ لیتا تھا اور عرف عام میں ’’پیسہ ٹک‘‘ مرزا کہلاتا تھا۔ یہ لوگ عموماً بہت خوش نویس ہوتے تھے۔ ان ہی عرضی نویس سے حسب ضرورت خالی پوسٹ پر تحصیل کلرک کا تقرر کیا جاتا تھا۔

ہر تحصیل کی سطح پر تین یا دو قاضیوں پر مشتمل شرعی عدالتیں کام کرتی تھیں جہاں فریقین اپنی رضامندی سے مقدمات لگواسکتے تھے۔ مرکز میں قاضی القضا کی سربراہی میں اعلیٰ ترین عدالت قائم تھی جو عموماً قصاص اور دیت کے مقدمات حل کرتی تھی، اس عدالت کا فاصلہ اٹل ہوا کرتا تھا۔