تعلیم و تعلم میں صرف ہونے والے لمحات بجا طور پر انفرادی اور اجتماعی زندگی کی سب سے قیمتی لمحات ہوتے ہیں۔ انسانی تاریخ کے ہر گوشے کو اگر آشکار کیا جائے، تو ہر دور میں علم اور اس سے وابستہ افراد، اعمال اور اشیا کو اعلیٰ مقام ملا ہے۔
قرآن عظیم الشان میں بھی اللہ تعالیٰ بار بار اس بات کی طرف اشارہ فرماتا ہے کہ کیا وہ لوگ جو علم رکھتے ہیں اور وہ جو علم نہیں رکھتے، کبھی برابر ہوسکتے ہیں؟ اس ضمن میں صحاحِ ستہ میں نبی کریمؐ سے ایک حدیث منقول ہے کہ ’’اے اللہ ہمیں نفع پہنچانے والا علم عطا کر اور بے فائدہ علم سے ہمیں بچا کر رکھیو۔‘‘
علم کے ذیل میں نفع اور غیر منفعت بخش یا نقصان دہ کی بحث کچھ عجیب سی لگتی ہے اور بہت سے اہلِ علم نے اس لیے اس قسم کی تقسیم کو یکسر مسترد کیا ہے، لیکن اگر ہم فائدہ مند اور بے فائدہ کے الفاظ پر غور کرکے اس کے مفاہیم کو کھول دیں، تو آج کے دور کی مناسبت سے یہ ایک لازمی اور اہم عنصر نکل آتا ہے۔ نافع کے مفہوم میں فائدہ مند، کار آمد، مدد گار، سہولت کار، با وصف اور قابل قدر کے معانی پنہاں ہیں۔ اور یہ سارے مفاہیم مطلق (Absolute) معانی نہیں دیتے، بلکہ سیاق و حالات پر منحصر متعلقہ (Relative) معانی لیے ہوئے ہوتے ہیں۔ یعنی ہوسکتا ہے کہ کسی مخصوص وقت اور حالت میں ایک چیز فائدہ مند ہو، لیکن دوسرے حالات میں درجہ بندی کے لحاظ سے وہ غیر منفعت بخش واقع ہوتی ہو۔
جدید دنیا میں علم و تحقیق کے حوالے سے بے نظیر وسایل خرچ کیے جارہے ہیں، جس کی بدولت انسانی مسائل سے لے کر جانوروں اور ماحولیاتی مسائل تک کے موضوعات پر مسلسل نئے علم کی کشید کاری نمو پارہی ہے، لیکن ہمارے جیسے کم وسائل والے ممالک اس عمل میں دیکھا دیکھی کی بنیاد پر صرف ان اقوام کی نقل اتار رہے ہیں۔ اگر دیکھا جائے، تو ان ممالک اور اقوام نے اپنی تحقیق کے موضوعات کے لیے باقاعدہ ایک ضابطۂ کار اور ضرورت کی بنیاد پر طریقۂ کار ترتیب دیا ہے اور ترقی یافتہ اقوام کی سطح پر OECD یعنی معاشی تعاون و ترقی کی تنظیم اور یورپی یونین کی سطح پر مختلف پروگرامز ترتیب دیے ہیں اور ان کے لیے خطیر رقوم بھی مختص کی گئی ہیں۔ ان میں ایک فنڈ "Entrepreneurial discovery process” کے پراجیکٹ کے لیے بھی ہے جو کہ علاقائی سطح پر مقامی رجحانات اور مہارتوں کی بنیاد پر ایسے کاروباری مواقع کشید کرتا ہے جو کہ معاشی، معاشرتی اور ثقافتی طور پر دیرپا (sustainable) ہو۔ یعنی اپنے اعلیٰ تعلیم کے اداروں، انڈسٹری اور پالیسی ساز اداروں کے درمیان ایک ایسا اشتراکِ عمل جس سے مؤثر اور قابلِ قدر نتائج حاصل کیے جا سکیں۔ 28 یورپی ممالک میں اب تک اس کام کو پھیلایا جا چکا ہے، جس کے نتائج حیرت انگیز طور پر ہمہ جہت فواید لیے ہوئے ہیں۔ اصل میں جو بھی تحقیقی کام نتائج کی کشید کے ساتھ پروان چڑھتا ہے، وہ ان کے قومی اور ملکی مقاصد کے گرد ہی گھومتا رہتا ہے اور اکثریتی طور پر داخلی انڈسٹری اور مسائل پر مرتکز ہوکر انہی کے حل کے لیے تگ و دو میں مصروفِ عمل ہوتا ہے۔
اس کے برعکس ہمارے ملک میں 116 یونیورسٹیز کام کر رہی ہیں، لیکن بہت کم تحقیقی کام ایسا ہے جو کہ ہمارے قومی و ملکی مقاصد سے ہم آہنگ ہوکر ان مسائل کے حل میں ممد و معاون ثابت ہوسکے۔ ہائیر ایجوکیشن کمیشن نے اس حوالے سے یونیورسٹیز میں ORIC یعنی Office of research innovation and commercialization بنانے کا عمل 2012ء سے شروع کیا ہے اور اب تک لگ بھگ 70 یونیورسٹیز میں یہ کام تکمیل پا چکا ہے، لیکن وہ بھی کماحقہ نتائج دینے سے قاصر ہے۔ کیوں کہ اس آفس میں عموماً کسی دوسرے ڈیپارٹمنٹ سے ڈیپوٹیشن پر کسی پروفیسر صاحب کو کچھ عرصہ کے لیے عارضی طور پر تعینات کردیا جاتا ہے، حالاں کہ یہ ایک انتہائی اہم اور لازمی کام ہے جو کہ مستقل اسی فیلڈ سے وابستہ افرادِ کار کا متقاضی ہے۔ علاوہ ازیں ٹیکنالوجی پارکس اور "Incubators” بھی مختلف یونیورسٹیوں میں بنائے جا چکے ہیں، لیکن تحقیقی کام کے سپیشلسٹ مینیجرز کی عدم موجودگی میں وہ صرف ایک بھونڈی نقالی اور مزاحیہ سوانگ کا ہی نقشہ پیش کررہا ہوتا ہے۔ ہائیر ایجوکیشن کمیشن نے بلامبالغہ اب تک کھربوں روپے کی رقم پچھلے پندرہ بیس سالوں میں خرچ کی ہے، لیکن بے محابا پی ایچ ڈی پیدا کرنے کے علاوہ فائدہ مند علم کے تناظر میں کماحقہ نتائج حاصل نہیں کر پایا۔ بہت کم تحقیقی کام ایسا ہے جس سے ہمارے مقامی و ملکی مسائل کے حل کے حوالے سے کوئی پیش رفت ممکن ہوئی ہو۔ زرعی شعبے سے ریٹایرڈ ایک نامی گرامی ڈائیریکٹر صاحب سے جب اسی بابت میں نے دریافت کیا تو کہنے لگے کہ سارا ٹوپی ڈراما ہے۔ ہم باہر کے ممالک میں بس فارغ البالی اور سیر سپاٹے کے لیے ہی جایا کرتے ہیں، کوئی قابلِ عمل تحقیق یا علم اور ٹیکنالوجی کی ترسیل کے لیے نہیں جاتے، حالاں کہ یہی ہماری معیشت کا سب سے اہم اور بڑا شعبہ ہے۔ ہماری درآمدات میں ایک بڑا حصہ جدید آلات کا ہوتا ہے جن کا متبادل تیار کرنے سے ہم قاصر ہیں۔ ہمارے ملک میں ہر وقت معیشت کی تنگ دامنی کا سامنا ہوتا ہے، لیکن اگر ہم کم از کم علم کے حوالہ سے اپنی ملکی و قومی ضروریات کو مد نظر کر علم نافع کی بنیاد پر ترجیحات کا تعین کرلیں، تو نہ صرف یہ کہ وسائل کے ضیاع سے گلو خلاصی ہوجائے گی، بلکہ ہماری ڈولتی معیشت کو بھی نشانِ منزل مل جائیں گے جس سے ہمہ جہتی اور ہمہ پہلو ترقی کا پہیہ چالو ہوسکے گا۔
……………………………………………………………….
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔