وکی پیڈیا کے مطابق بیسویں صدی کے اردو زبان کے مشہور شاعر اور تحریک آزادی ہند کے کارکن حسرت موہانی 13مئی 1951ء کو انتقال کرگئے۔
آپ کا اصل نام سید فضل الحسن اور تخلص حسرت تھا، قصبہ موہان ضلع اناؤ میں 1875ء کو پیداہوئے۔ آپ کے والد کا نام سید اظہر حسین تھا۔
آپ نے ابتدائی تعلیم گھر پر ہی حاصل کی۔ 1903ء میں علی گڑھ سے بی اے کیا۔ عربی کی تعلیم مولانا سید ظہور الاسلام فتح پوری سے اور فارسی کی تعلیم مولانا نیاز فتح پوری کے والد محمد امیر خان سے حاصل کی تھی ۔
حسرتؔ سودیشی تحریک کے زبردست حامیوں میں سے تھے اور آپ نے آخری وقت تک کوئی ولایتی چیز کو ہاتھ نہیں لگایا۔ شروع ہی سے شاعری کا ذوق تھا۔ اپنا کلام تسنیم لکھنوی کو دکھانے لگے۔ 1903ء میں علی گڑھ سے ایک رسالہ اردوئے معلی جاری کیا۔ اسی دوران میں شعرائے متقدمین کے دیوانوں کا انتخاب کرنا شروع کیا۔ سودیشی تحریکوں میں بھی حصہ لیتے رہے۔ چناں چہ علامہ شبلی نے ایک مرتبہ کہا تھا۔تم آدمی ہو یا جن، پہلے شاعر تھے پھر سیاست دان بنے اور اب بنئے ہو گئے ہو۔
حسرتؔ پہلے کانگرسی تھے۔ گورنمنٹ کانگریس کے خلا ف تھی۔ چناں چہ 1907ء میں ایک مضمون شائع کرنے پر جیل بھیج دیے گئے۔ ان کے بعد 1947ء تک کئی بار قید اور رہا ہوئے۔ اس دوران آپ کی مالی حالت تباہ ہو گئی تھی۔ رسالہ بھی بند ہو چکا تھا، مگران تمام مصائب کو آپ نے نہایت خندہ پیشانی سے برداشت کیا اور مشقِ سخن بھی جاری رکھا۔
آپ کو ’’رئیس المتغزلین‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔