کلام میں مناسب وقفوں کے ساتھ ہم قافیہ الفاظ لانا "ترصیع” (Pararhyme) کہلاتا ہے۔ اس کا لفظی مفہوم "موتی ٹانکنا” ہے۔
ترصیع لفظی در و بست کا ہنر ہے، جس سے کلام میں خوبصورت آہنگ پیدا ہوتا ہے۔ مشرقی شعریات میں اکثر شعوری طور پر ترصیع کو اپنایا گیا ہے۔ اگرچہ یہ کوشش بھی سامع نواز ہے، لیکن تخلیقی بہاؤ کے ساتھ ترصیع خود بخود پیدا ہوجائے، تو جمال کی ایک خاص کیفیت سامنے آتی ہے، جسے ترفع کے ذیل میں رکھنا چاہیے۔
ترصیع میں نظم کے اپنے موجود اور لازمی قافیے کے علاوہ اندرونی قافیے بنتے جاتے ہیں، یوں سماعت کے لیے لمحاتِ جمال بڑھتے جاتے ہیں۔
غالب کا ذیل میں دیا جانے والا شعر ترصیع کی عمدہ مثال ہے:
جب وہ جمالِ دلفروز، صورتِ مہرِ نیم روز
آپ ہی ہو نظارہ سوز، پردے میں منھ چھپائے کیوں
(پروفیسر انور جمال کی تصنیف ادبی اصطلاحات مطبوعہ نیشنل بُک فاؤنڈیشن، اشاعتِ چہارم، مارچ 2017ء، صفحہ نمبر 69 سے انتخاب)