771 عیسوی بمطابق 451 ہجری میں خلافتِ عباسیہ کے بادشاہ منصور کے دور میں ایک ہندو بغداد میں وارد ہوا۔ اس نے کافی پیسہ اور تحفے تحائف دے دلاکے خلیفہ منصور کے دربار میں بہت کوششوں کے بعد رسائی حاصل کرلی۔ اسے پتا تھا کہ میں خلیفہ کو جو چیز پیش کرنے جا رہا ہوں وہ مجھے اچھے دام اور رتبہ دلاسکتا ہے۔ اس دور میں خلافتِ عباسیہ نئی نئی وجود میں آئی تھی اور اپنے بڑے بھائی سفاح سے خلافت پاکر منصور ہمہ وقت اپنی سلطنت کی بنیادوں کو مستحکم کرنے میں لگا ہوا تھا۔ ایک شورش کو ٹھکانے لگانے کے دوران میں ہی دوسری شورش کا سامنا ہوتا تھا۔ سیاسی طور پر انہیں بنی امیہ کے اثر و رسوخ کے ختم کرنے کی بھی فکر تھی اور اہلِ بیت سے بھی دو دھاری تلوار کے موافق نپٹنا تھا، لیکن بہرحال جب بھی دربار لگتا، تو خلیفہ کے دربار میں بیرونی مہمان علیحدہ سے وقت میں حاضر ہوتے اور انہیں نسبتاً زیادہ وقت اپنی عرضی پیش کرنے کے لیے ملتا۔
ہندو بغل میں دو کتابیں دبائے ہوئے منصور کے دربار میں حاضر ہوا۔ بادشاہ کے استفسار کرنے پر ہندو نے بادشاہ کی علم دوستی کی تعریف میں زمین آسمان کے قلابے ملاتے ہوئے اسے ان دو کتابوں کا حقیقی قدردان کہہ کر تحفتاً پیش کیں۔ بادشاہ نے محمد الفزاری (جو کہ سنسکرت زبان پر عبور رکھتا تھا) کو دونوں کتابوں کی چھان پھٹک کا کام سونپ دیا اور ہندو کو شاہی مہمان کا درجہ دے کر اپنے ہاں ٹھہرادیا۔ ان میں سے ایک کتاب ’’سدھانتا‘‘ اور دوسری ’’حساب‘‘ تھی۔ اگر تو یہ کتابیں منظوری حاصل کرپاتیں، تو ہندو کو انعام و اکرام اور بادشاہ سے قربت حاصل ہوپاتی لیکن اگر یہ غیر اہم قرار پاتیں، تو سزا کا احتمال بھی بایں ہمہ موجود تھا۔ بہرحال محمد الفزاری نے دونوں کتابوں کو منظور کرتے ہوئے بادشاہ کی خدمت میں پیش کیں، جس پہ بادشاہ نے محمد الفزاری کو اس کے ترجمے کے کام پر لگا دیا اور ہندو کو انعام و اکرام دینے کے ساتھ ساتھ مصاحب کا درجہ بھی دے دیا۔ لگ بھگ تین سال میں ترجمے کا یہ کام سرانجام پایا اور اس کے بعد یہ کتب شاہی لائبریری کی زینت بنی، جہاں سے الخوارزمی نے بشمول اور کتابوں کے اس سے استفادہ کرتے ہوئے اپنی فلکیات اور الجبر و المقابلہ تشکیل دی۔ یہ آج سے لگ بھگ 1300 سال قبل، خلافتِ عباسیہ کی ابتدائی دگرگوں حالتِ حکومت میں ایک بادشاہ کا طرزِ عمل تھا جس سے ترقی پاکر بیت الحکمت جیسے عجوبے وجود میں آئے، جس کی بدولت اس وقت کے مروجہ علوم کی کایا ہی پلٹ گئی اور دنیا جدید سائنس کی بنیادوں کو تشکیل دینے میں کامیاب ہوئی۔ علم کی ترقی کا یہ ماحول اور انداز ہوتا ہے۔
اب 1300 سال سفر طے کرکے مملکتِ خداداد، اسلامی جمہوریۂ پاکستان میں سوچ کے قدم رنجہ فرمائیں، تو آج کل یہاں کے تعلیمی حلقوں میں ہائیر ایجوکیشن کمیشن کا یہ نوٹیفیکیشن ایک جاں کاہ خبر کی صورت گردش میں ہے کہ تحقیق کی بابت مختلف سہولیات جو دی جاتی تھیں، موجودہ حکومت کے بجٹ ترجیحات کی وجہ سے وہ ختم کر دی گئی ہیں۔ ان میں ایک سہولت تحقیقی جرائد کے اجرا کی بنیاد پر مالی اعانت تھی۔
دوسری سہولت تحقیق کاروں کے سال میں دو تحقیقی دوروں اور طالب علموں کے سال میں ایک تحقیقی دورے کے حوالہ سے تھی۔
جب کہ تیسری سہولت ملکی یونیورسٹیوں میں تحقیقی کانفرنسز کے انعقاد کے حوالے سے حکومتی اعانت کی تھی۔
یاد رہے کہ پاکستان پہلے سے ہی تحقیقی اشاریوں "index” کے حوالے سے دنیا کے پسماندہ ممالک میں شمار کیا جاتا ہے۔ نہ تو پاکستان کا کوئی جریدہ قابلِ ذکر "Impact Factor” کا حامل ہے، اور نہ کوئی یونیورسٹی ہی ’’ٹاپ رینکنگ‘‘ میں شمار ہوتی ہے۔
ورلڈ اِکنامک فورم جو اشاریے ترتیب دیتی ہے، ان میں ایک عالمی مسابقت کا ا شاریہ "Global competitive index” بھی ہے۔ اس کے 172 ممالک کے موازنے میں پاکستان کی پوزیشن 138 ہے جو کہ پچھلے سال سے ابتر ہوئی ہے۔ جس آئی ٹی انقلاب کا ’’ڈھنڈورا‘‘ پیٹا جاتا تھا، اس میں یہ رینکنگ 147 ہے۔ اس سے تعلیمی اور تحقیقی لحاظ سے ہمارے بانجھ پن کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
اس مشکل صورتحال میں جو لوگ باہر کے ممالک میں موجود آسائشوں سے بھرپور مواقع کو ٹھوکر مار کر دھرتی ماں کے لیے یہیں پر موجود ہیں، انہیں دیوار سے لگا دینے کے اقدامات کی توقع تو کسی ناعاقبت اندیش دشمن سے ہی کی جاسکتی ہے، نہ کہ کسی خیر خواہ سے۔
موجودہ حکومت کے انتخابی نعروں میں ایک نعرہ ’’تعلیمی ایمرجنسی‘‘ کا بھی تھا، جو کہ سب نعروں میں زیادہ مقبول تھا۔ کیا یہ ہے تعلیمی ایمرجنسی؟ یا یہ ہمارے نظامِ صحت کی طرح معکوس تعلیمی ایمرجنسی ہے؟ ہائیر ایجوکیشن کے حوالے سے جتنا کچھ اغماض اور بے توجہی آج کی حکومت برت رہی ہے، اس کی نظیر پچھلے 20 سال میں ڈھونڈنا مشکل ہے۔ پچھلے 10 سالوں سے مسلسل ہائیر ایجوکیشن بجٹ میں سالانہ 17 فی صد کا اضافہ ہوتا تھا، لیکن موجودہ حکومت نے اپنے منی بجٹ میں اضافہ تو درکنار الٹا 14 فی صد کمی کا اعلان کیا ہے جس کا نتیجہ ہمارے سامنے ہے۔ اگر یہی صورتحال برقرار رہی، تو تعلیم و تحقیق کی ابتر حالت اور بھی بگڑ سکتی ہے کہ ایمرجنسی لے جانے کا موقع بھی پھر ہمارے پاس نہ ہو۔
ہوسکتا ہے کہ موجودہ حکومت کے تئیں، ان کے آئندہ ممکنہ ووٹرز میں تعلیم و تحقیق سے وابستہ افراد کی تعداد قابل ذکر نہ ہو، لیکن انہیں یہ سمجھنا چاہیے کہ قوموں کی ترقی کے پیمانے اور تاریخی عوامل اسی سندوتحقیق سے ہو کر گزرتے ہیں۔ لہٰذا محض اپنے ووٹرز کی افتادِ طبع پہ نہ جانا چاہیے اور معاملے کی نزاکت اور اہمیت کو مدنظر رکھتے ہوئے اس سیکٹر کی طرف بھرپور توجہ دی جانی چاہیے۔ کیوں کہ یہی لوگ بشمول چند دوسرے محدود سیکٹرز کے اس ملک کا نمک ہیں۔

…………………………………………………………

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔