ہر صنفِ شاعری کی طرح سلام پر بھی دو طرح سے بحث ہوسکتی ہے۔
1۔ ہیئت یا فارم۔
2۔ مواد یا موضوع۔
جہاں تک ہیئت یا تعلق ہے، سلام کی ہیئت مکمل طور پر "غزل” کی سی ہوتی ہے۔ بحریں بھی وہی، مطلع مقطع بھی اس طرح، ردیف قافیے کی بندش بھی وہی۔ غزل ہی کی طرح سلام کا ہر شعر ایک الگ یونٹ ہوتا ہے، جس کا ماسبق مابعد اشعار سے موضوعی یا منطقی ربط ہونا ضروری نہیں۔
غزل ہی کی طرح سلام کا کوئی عنوان نہیں ہوتا۔ شعروں کی تعداد کے اعتبار سے بھی سلام غزل جیسا ہی ہوتا ہے، یعنی بارہ تیرہ اشعار تک۔ البتہ موضوعی طور پر غزل اور سلام میں یہ فرق ہے کہ غزل میں بنیادی طور پر عشقِ مجازی اور معاملاتِ حسن و عشق کے مضامین بیان ہوتے ہیں جب کہ سلام میں وہ تمام مضامین بیان ہوسکتے ہیں جو مرثیے کا موضوع ہیں۔
واقعات و مصائبِ کربلا، مناقبِ آلِ رسولؐ، شہادت و مناقب، اہلِ بیت کے مضامین اور ان کے علاوہ تصوف اور اخلاقی مضامین بھی سلام میں بیان ہوتے ہیں۔ میر انیس کے سلاموں میں بعض اشعار ایسے بھی ملتے ہیں جو "غزل” کے اشعار ہی معلوم ہوتے ہیں۔
(پروفیسر انور جمال کی تصنیف "ادبی اصطلاحات” مطبوعہ "نیشنل بُک فاؤنڈیشن”، اشاعتِ چہارم مارچ، 2017ء، صفحہ نمبر 118 اور 119 سے انتخاب)