عربوں نے اسلام سے پہلے قمری مہینوں کے نام استعمال کیے ہیں، اور پھر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ عرب میں کچھ ناموں پر اتفاق ہو گیا اور سارے عرب علاقے میں رائج ہو گئے، اور یہ وہی صورت تھی جس میں یہ نام آج کل ہمارے ہاں معروف ہیں۔ نیز یہ پانچویں صدی عیسوی کا واقعہ ہے، جو کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پانچویں دادا ’’کلاب‘‘ کا زمانہ تھا۔
قمری مہینوں کے نام رکھنے کی وجۂ تسمیہ اور جن معانی کی وجہ سے ان مہینوں کو موسوم کیا گیا ہے۔ انہیں اہلِ علم نے ذکر کیا ہے، چناں چہ حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ کہتے ہیں: ’’شیخ علم الدین سخاوی رحمہ اللہ نے ایک رسالہ لکھا جس کا نام ہے، ’’الْمَشْھُورُ فِي أَسْمَاءِ الْأَیَّامِ وَالشُّھُورِ‘‘ جس میں وہ رقمطراز ہیں: محرم کی وجۂ تسمیہ یہ ہے کہ یہ مہینہ حرمت والا ہے، لیکن میرے نزدیک اس کی وجۂ تسمیہ اس مہینے کی حرمت کو مزید عیاں اور مؤکد کرنے کے لیے اس نام سے موسوم کیا گیا؛ کیوں کہ عرب اس مہینے کی حرمت کو دیگر مہینوں میں منتقل کرتے رہتے تھے، چناں چہ ایک سال محرم کو حرمت والا سمجھتے اور آئندہ سال میں اس کی حرمت کسی اور مہینے میں منتقل کر دیتے تھے، اور اسے حلال جانتے تھے۔ سخاوی رحمہ اللہ پھر کہتے ہیں کہ، محرم کی جمع عربی زبان میں محرمات، محارم اور محاریم آتی ہے۔
’’صفر‘‘ کی وجۂ تسمیہ یہ ہے کہ عربوں کے گھر سفر اور جنگوں پر روانگی کے باعث رہنے والوں سے خالی ہو جاتے تھے، اور عربی زبان میں ’’صَفِرَ الْمَکَانُ‘‘ اس وقت بولا جاتا ہے جب کوئی جگہ انسانوں سے خالی ہو جائے۔ اس کی عربی میں جمع ’’أصفار‘‘ آتی ہے۔
’’ربیع الاول‘‘ کی وجۂ تسمیہ یہ ہے (یہ ’’ارتباع‘‘ سے ہے) اور ارتباع گھر میں ٹکے رہنے کو کہتے ہیں۔ چوں کہ اس مہینے میں لوگ اپنے گھروں میں بیٹھے رہتے تھے۔ اس لیے اسے ربیع کا نام دیا گیا۔ اس کی عربی زبان میں جمع ’’أربعاء‘‘ جیسے ’’نصیب‘‘ کی جمع ’’أنصباء‘‘ آتی ہے۔ اسی طرح اس کی جمع ’’أربعۃ‘‘ بھی آتی ہے جیسے ’’رغیف‘‘ کی جمع ’’أرغفۃ‘‘ آتی ہے۔ ربیع الثانی کی وجۂ تسمیہ بھی یہی ہے۔
جمادی الاولی کی وجۂ تسمیہ یہ ہے کہ اس مہینے میں پانی جامد ہو گیا تھا۔
ایسا لگتا ہے کہ ان کے حساب سے قمری مہینے گرمی سردی میں تبدیل ہو کر نہیں آتے تھے، لیکن یہ صحیح نہیں ہے؛ کیوں کہ اگر قمری مہینے چاند سے منسلک ہیں، تو لازمی بات ہے کہ یہ مہینے گرمی اور سردی تبدیل ہو کر آئیں۔ البتہ یہ ممکن ہے کہ جس وقت انہوں نے ان مہینوں کو نام دیے، تو اس وقت پانی سردی کی وجہ سے جم چکا تھا۔ جمادی کی جمع عربی زبان میں ’’جمادیات‘‘ آتی ہے، جیسے کہ ’’حباری‘‘ کی جمع ’’حباریات‘‘ آتی ہے۔ عربی زبان میں ’’جمادی‘‘ کا لفظ مذکر اور مؤنث دونوں طرح استعمال ہوتا ہے۔ چناں چہ ’’جمادی الاول‘‘ اور ’’جمادی الاولی‘‘ اسی طرح ’’جمادی الآخر‘‘ اور ’’جمادی الآخرۃ‘‘ دونوں طرح کہنا درست ہے۔
’’رجب‘‘ عربی زبان کے لفظ ’’ترجیب‘‘ سے ماخوذ ہے، جس کے معنی تعظیم کرنا کے ہیں (یہ حرمت والا مہینا ہے اور اس کی تعظیم کی جاتی ہے اس لیے اسے رجب کے نام سے موسوم کیا گیا)۔ اس کی جمع ’’أرجاب، رجاب اور رجبات‘‘ آتی ہے۔
’’شعبان‘‘ کا لفظ ’’تشعب‘‘ سے ماخوذ ہے، جس کا مطلب ہے بکھرنا، منتشر ہونا (اس مہینے میں لوگ حرمت والے مہینے میں گھروں میں قید رہنے کے بعد لڑائی جھگڑے کے لیے باہر نکلتے تھے)۔ اس کی جمع ’’شعابین‘‘ اور ’’شعبانات‘‘ آتی ہے۔
’’رمضان‘‘ کا لفظ ’’رمضاء‘‘ سے ماخوذ ہے، جس کا مطلب ہے سخت گرمی، عربی میں ’’رمضت الفصال‘‘ اس وقت کہا جاتا ہے جب اونٹنی کا بچہ گرمی سے پیاسا ہو جائے۔ اس کی جمع ’’رمضانات‘‘ اور ’’رمضاضین‘‘ اور ’’أرمضۃ‘‘ آتی ہے۔
’’شوال‘‘ کا لفظ عربی زبان کے مقولے ’’شالت الابل بأذنابہا للطراق‘‘ سے ماخوذ ہے اور یہ اس وقت بولا جاتا ہے جب اونٹ جفتی کے لیے اپنی دم اٹھائے۔ اس کی جمع ’’شواویل‘‘، ’’شواول‘‘ اور ’’شوالات‘‘ آتی ہے۔
’’ذو القعدہ‘‘ میں ’’ق‘‘ پر زَبر پڑھی جائے گی، لیکن میں کہتا ہوں کہ زیر بھی پڑھی جا سکتی ہیں۔ کیوں کہ عرب اس مہینے میں جنگوں اور سفر کرنے سے گھروں میں بیٹھ جاتے تھے۔ اس کی جمع ’’ذوات القعدۃ‘‘ آتی ہے۔
’’ذو الحجہ‘‘ میں ’’ح‘‘ پر زیر پڑھی گئی ہے، لیکن میں کہتا ہوں کہ زبر پڑھنا بھی ٹھیک ہے۔ کیوں کہ اس مہینے میں حج کیا جاتا ہے، اس لیے اس مہینے کا نام ذو الحجہ ہے۔ اس کی جمع ’’ذوات الحجۃ‘‘ آتی ہے ۔ ماخوذ از: تفسیر ابن کثیر:(4/ 128-129)
مزید کے لیے آپ ’’المفصل في تاریخ العرب قبل الاسلام‘‘ از: مؤرخ جواد علی (16/91) اور اس کے بعد والے حصے کا مطالعہ کریں۔
مہینوں کے نام اور ان کے معانی کی شرح ، اصل اشتقاق بیان کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ اسی طرح وجۂ تسمیہ بھی بیان کی جا سکتی ہے، جیسے کہ پہلے بھی مؤرخین اور علمائے لغت بیان کرتے آئے ہیں۔خصوصی طور پر اگر اس میں تعلیمی مصلحت کار فرما ہو، تو اور بھی اچھا ہے۔
یہ واضح رہے کہ اس ناموں کے اصل اشتقاق کا مہینوں کے ناموں سے کوئی تعلق نہیں رہا۔ کیوں کہ قمری مہینے سال کے سارے موسموں میں بدل بدل کر آتے ہیں، نیز وجۂ تسمیہ کا شرعی احکامات سے کوئی تعلق بھی نہیں ہے۔ (بحوالہ "www.islamqa.info”)