ہم کیا اور ہماری رائے اور تجزیے کی حیثیت کیا؟ محدود دائرے میں ایک کمزور اور نخیف آواز لیکن ملک، قوم اور ملت سے تعلق ہمیں اس بات پر مجبور کرتی ہے کہ ہم اپنے احساسات، جذبات اور رائے کا اظہار کریں اور حقیقتِ حال بیان کرنے کا اپنا حق ادا کریں۔ کتمان حق کے احساسِ جرم میں اپنے ضمیر کے بوجھ کو ہلکا کریں۔ جو صورتِ حال اس وقت درپیش ہے، وہ یہ ہے کہ ہندوستان نے مقبوضہ کشمیر کے مسلم عوام کو غلامی کی زنجیروں میں جکڑ کر ان پر عرصۂ حیات تنگ کر رکھا ہے۔ ان پر جبر و تشدد کے ذریعے ان کو زندگی یا موت کے مرحلے تک پہنچادیا ہے۔ کتنا ظالمانہ، وحشیانہ اور جابرانہ انداز ہے اور انگریز حکومت کی مسلمان دشمنی کا واضح اظہار و اعلان ہے کہ ایک کروڑ پچاس لاکھ مسلم عوام کو ڈوگرہ راجہ کے ہاتھوں 75 لاکھ روپے کے عوض فروخت کردیا گیا اور دنیا میں ظلم و شقاوت اور مسلم دشمنی کی ایک نادر مثال قائم کی گئی۔
پھر تقسیم برصغیر کے دوران میں تقسیمِ آبادی کا جو فارمولہ طے ہوا کہ جس ریاست کے عوام بھارت یا پاکستان کے ساتھ شمولیت اختیار کرنا چاہیں، وہ ایسا کر سکتے ہیں۔ اس فارمولے کے تحت حیدر آباد دکن کی ریاست جس کا حکمران مسلمان تھا اور اکثریتی رعایا غیر مسلم، اس کو انڈیا میں پولیس ایکشن کے نام سے فوجی کارروائی کرکے بزور انڈیا میں شامل کیا گیا۔ اسی طرح بھوپال کی مسلم ریاست کو بھی انڈیا میں شمولیت پر مجبور کیا گیا، لیکن ایک کروڑ پچاس لاکھ باشندوں کی ریاست جموں و کشمیر کے بارے میں یہ مؤقف اختیار کیا گیا کہ اس کا حکمران غیر مسلم ڈوگرہ راجہ ہے اور اسی طرح راجہ ہری سنگھ، انگریز ریڈ کلف اور ہندوسیاست دانوں نے مل کر سازش کے ذریعے پورے ضلع گورداسپور اور مقبوضہ وادی کو ہندو ستان میں شامل کیا۔ پھر جب رد عمل کے طور پر کشمیری عوام نے بغاوت اور مزاحمت کی اور پاکستان کے غیر ت مند قبائلی مسلمان ان کی مدد کے لیے پہنچ گئے اور سری نگر تک پورا علاقہ فتح کیا، تو ہندوستان کے وزیر اعظم نے اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کا اجلاس طلب کرکے دہائی دی کہ پاکستان نے ہمارے خلاف مذہبی جنگ یعنی ’’جہاد‘‘ شروع کیا ہے اور جنرل اسمبلی میں جنگ بندی کی قرارداد پاس کروانے اور کشمیری عوام سے حقِ خود ارادیت کے لیے رائے لینے کی قرارداد پاس کی، جس پر آج تک عمل در آمد نہیں ہوسکا۔ اس دوران میں پاکستانی حکومت اور خاص کر پاکستان کی نو تشکیل شدہ آرمی کا کردار بھی سامنے آیا کہ جب قائد اعظم نے پاکستانی فوج کے انگریز کمانڈر انچیف جنرل گریسی کو آگے بڑھ کر حملہ کرنے کا حکم دیا، تو جنرل گریسی نے صاف انکار کیا اور سول بالادستی کو قبول کرنے اور سربراہِ مملکت کا حکم ماننے سے انکار کرکے آئندہ کے لیے ایک نہایت جمہوریت دشمن روایت کی بنا ڈالی، لیکن اس کے علاوہ پنجاب کے اس وقت کی سول انتظامیہ اور وزیر اعلیٰ ممدوٹ کا رویہ بھی نہایت غیر ذمہ دارانہ اور افسوس ناک تھا۔ جب سید مودودی مرحوم کی قیادت میں وفد نے وزیر اعلیٰ ممدوٹ سے ملاقات میں یہ تجویز پیش کی کہ حکومت کو آگے بڑھ کر کشمیر کو جانے والی شاہراہ کو بند کرکے انڈیا کی مداخلت کا سدباب کرنا چاہیے۔ تاکہ انڈیا وہاں پر اپنی فوج اور اسلحہ نہ پہنچا سکے، تو ممدوٹ نے نہایت تکبر سے بھر پور جا گیردارانہ انداز میں جواب دیا، ’’مولوی صاحب آپ اپنا کام کریں اور ہمیں اپنا کام کرنے دیں۔‘‘ لیکن ان جاگیر داروں اور انگریز کے پروردہ کاسہ لیسوں نے اپنا کام نہیں کیااور انڈیا نے موقع سے فائدہ اٹھا کر اپنی فوج مقبوضہ کشمیر میں پہنچا دی اور اپنے قبضے کو مستحکم کیا۔ وہ د ن اور آج کا دن کشمیری عوام بھارتی ظلم و ستم اور جبرِناروا کے شکار ہیں۔
جب بھی کشمیری عوام اپنی آزادی و خود مختاری کے لیے اُٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔ ہندوستان، پاکستان پر دخل اندازی اور مداخلت کا الزام لگا کر جنگ کی دھمکی دیتا ہے۔ حالاں کہ جتنی مزاحمتی اور کشمیر کی آزادی کی تحریکیں ہیں۔ وہ سب مقبوضہ کشمیر کی اپنے عوام سے تعلق رکھتی ہیں۔ پاکستان تو زیادہ سے زیادہ ان کے لیے کبھی کبھی اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی، سلامتی کونسل یا کسی اور بین الاقوامی فورم پر آواز اٹھاتا ہے اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ پاکستانی سیاست دانوں نے مسئلہ کشمیر کو اپنے لیے سیاسی سکورنگ کا ایک ذریعہ بنا رکھا ہے۔ زیادہ سے زیادہ قومی اسمبلی کی کشمیر کمیٹی صر ف خانہ پری اور نام کی حد تک قائم کی جاتی ہے بلکہ پاکستان کی مختلف سیاسی پارٹیوں اور مقتدر حلقوں نے تو جنگ کے خوف سے اپنے اقتدار کے تحفظ کے لیے انڈیا سے خیر سگالی کے لیے بارڈر کھول کر تجارت تک شروع کی۔ اور ایک دشمن ملک کو پسندیدہ دوست قرار دے کر اس سے ٹماٹر اور پیاز درآمد کرنا شروع کیا۔ اس دوران میں سیاسی مقتدر قوتوں کی یہ خواہش بھی مختلف اقدامات کے ذریعے آشکارا ہوئی کہ یہ کشمیر بھی ہمارے لیے دردِ سر بنا ہوا ہے۔ اس کی وجہ سے پاکستان پر جنگیں مسلط کی گئیں اور پاکستانی معیشت کی کمزوری اور نا پائیداری کشمیری مسئلے کا شاخسانہ ہے۔ لہٰذا بنگلہ دیش کی طرح اس سے بھی جان چھڑا کر اپنے ملک کی خیر و عافیت منانی چاہیے۔ دوسری بات یہ کہ آپ امریکہ کی سرکردگی میں قائم طاغوتی قوتوں کی تنظیم اقوام متحدہ سے کشمیر میں استصواب رائے کرانے کی توقع اور امید لیے بیٹھے ہیں۔ بقولِ شاعر
میرؔ کیا سادہ ہیں بیمار ہوئے جس کے سبب
اسی عطار کے لونڈے سے دوا لیتے ہیں
اقوامِ متحدہ پر مسلط طاغوتی قوتوں کو انڈونیشیا میں ٹیمور کی عیسائی اقلیت کا مسئلہ نظر آتا ہے اور وہ اس کو بزور اور پروپیگنڈا کرکے مہینوں کے اندر انڈونیشیا سے آزادی دلاتا ہے۔ طاغوتی قوتوں کو سوڈان میں واقع غیر مسلم اقلیت کا مسئلہ تو سامنے نظر آتا ہے اور وہ اس کو مسلم سوڈان سے آزادی دلا کر ایک مسلم ملک کو کمزور اور پٹرول کے کنوؤں سے محروم کرتا ہے، لیکن ایک کروڑ پچاس لاکھ کی آبادی والے مسلم عوام کی استصواب رائے کے استعمال میں ان کو کوئی دلچسپی نہیں۔ اس لیے کہ عوام مسلمان ہیں اور غاصب اور قابض قوت غیر مسلم۔ اگر ایک طرف مقہور و مظلوم کشمیری عوام پر بھارتی ظلم و استبداد کا مسئلہ ہے، اور حق یہ ہے کہ ایک پڑوسی اور ہمسایہ مسلمان ملک اور اس تنازعے کے ایک فریق کی حیثیت سے پاکستان کا فرض ہے کہ اس تنازعے کے حل کے لیے اپنا بھرپور کردار ادا کرے اور مظلوم کشمیریوں کے حقِ خودارادیت کے لیے ہر قسم کی قربانی پیش کریں، تو دوسری طرف کشمیر کی آزادی پاکستان کی بقا، استحکام اور ترقی سے بھی بنیادی تعلق رکھتی ہے۔ اور قائد اعظم کا یہ قول بنیادی اہمیت کا حامل ہے کہ کشمیر ہماری شہ رگ ہے۔ آپ کے تین دریاؤں کا منبع وادی کشمیر میں ہے اور آپ کا دیرینہ اور مستقل دشمن ان دریاؤں پر بند باندھ کر آپ کے پورے صوبے کو ریگستان میں بدلنا چاہتا ہے۔ جب آپ کو پانی کی ضرورت نہ ہو، تو اپنے بندوں کا پانی چھوڑ کر آپ کو سیلاب میں ڈبونے کی کوشش کرتا ہے۔ یہ ایک مفروضہ نہیں بلکہ کھلی حقیقت ہے کہ بھارت آپ کی دشمنی میں کسی حد تک بھی جا سکتا ہے۔ اس نے اپنی دشمنی اور عداوت کو کبھی پوشیدہ نہیں رکھا۔ کئی مرتبہ وہ آپ کو ختم کرنے کے لیے آپ پر جارحیت کا ارتکاب کر چکا ہے۔ مشرقی پاکستان اس کی سازشوں اور عملی فوجی اقدام کے ذریعے بنگلہ دیش بن کر آپ سے علیحدہ ہوا اور آج کل آپ کا دشمن بنا ہوا ہے۔ اگر آپ مسلم امہ سے کشمیر کی آزادی کے لیے کوئی کلمۂ خیر کہنے یا بھارت سے اس کی آزادی کے لیے مطالبہ کی امید رکھتے ہیں، تو یہ بھی ایک خوش فہمی کے سوا کچھ نہیں۔ ابھی ابھی آپ نے چند ارب ڈالر امداد اور سرمایہ کاری کے لیے اپنی حیثیت سے گر کر ایک شہزادے کو شاہانہ پروٹوکول دے کر شاہانہ مہمان نوازی سے نوازا۔ اس نے آپ کو آپ کے منھ پر یہ مشورہ دے ڈالا کہ بھارت مستقبل کی ایک عالمی اقتصادی قوت ہے، لہٰذا س کے ساتھ اپنے معاملات مذاکرات کے ذریعے طے کیے جائیں۔ اس نے آپ کے ہاں دو دن اور آپ کے دشمن کے ہاں تین دن کا دورہ رکھا۔ اس نے آپ کے ساتھ چند ارب ڈالر اور ادھار تیل کا وعدہ کیا جب کہ آپ کے دشمن کے ساتھ چالیس ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا اعلان کیا۔ اس نے آپ کے ہاں بھی کشمیر کے تنازعے اور کشمیریوں کے حق خود ارادیت کی کوئی حمایت نہیں کی اور مودی کے سامنے تو اس کی مجال نہیں کہ کشمیریوں کے لیے کوئی کلمہ خیر کہے۔ آپ کی او آئی سی کے تقریباً زیادہ تر ممالک بھارت کے ساتھ دوستی، تجارت اور ہر قسم کے تعلقا ت رکھتے ہیں اور آپ کے ساتھ ان ملکوں کے تعلقات معلوم و معروف ہیں۔ لہٰذا کسی بھروسے پر یہ توقع نہیں رکھی جاسکتی کہ دنیا کی کوئی طاقت کشمیر کے مسئلے پر حق و صداقت کی بنیاد پر ہماری کوئی مدد کرسکتی ہے، یا کرے گی۔ ’’ایں خیال است و محال است و جنون۔‘‘
صرف ایک صورت باقی رہتی ہے۔ کشمیر کی آزادی، حق خود ارادیت اور پاکستان کے ساتھ الحاق کی کہ پاکستان خود کو مضبوط، مستحکم اور ناقابل تسخیر بنائے۔ پاکستان اپنی تمام کمزوریوں کا ادراک کرکے ان کو دور کرنے کا آغاز کرے۔ سب سے پہلے اور بنیادی مسئلہ ہماری قومی یک جہتی اور اتحاد و اتفاق کا ہے کہ ہم ایک متحد، مربوط اور متفق قومیت کی تشکیل کریں اور یہ دینِ اسلام کو بروئے کار لائے بغیر نہیں ہو سکتا۔ اسلام ہی ہمیں مربوط اور ایک دوسرے کے ساتھ جوڑنے کا واحد ذریعہ اور وسیلہ ہے۔ علاقائی قومیت، لسانیت، صوبائیت، فرقہ واریت اور رنگ و نسل کی تفریق ختم کرنے کا واحد نسخہ صرف اور صرف اسلام ہے۔ جب اسلام پر ایمان اور عقیدے کے ذریعے ایک متحد و متفق قوم سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح وجود میں آجائے گی، تو پھر ہماری قومی اور انسانی پوشیدہ صلاحیتیں اجاگر ہوں گی۔ پھر زمین ہمارے لیے اپنے پوشیدہ خزانے اگلنے لگے گی۔ آسمان سے ہمارے اوپر رحمتوں کی بارشیں برسیں گی۔ ہمارا ایک ایک فرد ہزاروں پر بھاری ہوگا۔ ہمارے دلوں میں وہن کی بیماری ختم ہو جائے گی۔ دنیا ہماری جھولی میں ہوگی، لیکن ہمارے دل دنیا کی محبت سے پاک اور اللہ تبارک و تعالیٰ کی محبت کے نور سے منور ہوں گے، نہ چٹانیں ہمارے راستے میں حائل ہوں گی اور نہ سمندر ہمارے راستے میں رکاوٹ ثابت ہوں گے۔ پہلے بھی ایسا ہوا ہے اور اب بھی ایسا ہونا ناممکن نہیں، لیکن اس کے لیے جس قیادت کی ضرورت ہے اس کی پہلی شرط یہ ہے کہ وہ غیروں کی ذہنی و فکری غلامی سے آزاد ذہن و فکر کی مالک ہو۔
اس کی دوسری شرط یہ ہے کہ اس کی اپنی شناخت اور پہچان ہو۔ اللہ تبارک و تعالیٰ کی ذات پر اس کو ایمان یقین کی حد تک کامل ہو۔ اللہ تبار ک و تعالیٰ کے آخری رسول کا اسوۂ حسنہ اس کے لیے ماڈل اور نمونہ ہو۔ مفاد پرستی، خودغرضی، انانیت، حبِ مال و جاہ کی بیماریوں سے اس کا قلب و ذہن پاک ہو۔ خوفِ آخر ت اور اللہ تبارک و تعالیٰ کے سامنے جواب دہی کا احساس، ذہن و قلب پر طاری ہو۔ دیانت، امانت، اخلاص اور قوم و ملت کی محبت سے سرشار ہو۔ یہ مضبوط و مستحکم اور خوشحال اسلامی پاکستان نہ صرف کشمیری عوام کی آزادی کا ضامن ہے بلکہ دنیا کے تمام مظلوم عوام کے لیے امید کی روشنی ہے، لیکن اگر آپ کو اپنے مسائل کا ادراک نہیں جیسا کہ بنگلہ دیش بننے کے سانحے کو آپ نے فراموش کیا۔ اس کی وجوہات کو آپ نے قوم سے پوشیدہ رکھا اور نتیجے میں موجودہ پاکستان طرح طرح کے فتنوں اور علیحیدگی کی تحریکوں کا شکار ہے۔ بلوچستان میں بلوچ قوم پرستوں اور ان کی سرپرستی کرنے والی باطل قوتوں کا مسئلہ بالکل سامنے ہے۔ سندھ میں سندھی قومیت اور پاکستان سے نفرت کی تحریک چل رہی ہے۔ کراچی میں ایم کیوایم نے پاکستان کے حب ایک بہت بڑے تجارتی و صنعتی اور کثیر آبادی پر مشتمل شہر کو بد امنی و قتل و غارت گری سے دوچار کر رکھا ہے۔ خیبر پختونخواہ میں ’’گریٹر پختونستان‘‘ کی تحریک کی علامتیں نمودار ہوچکی ہیں۔ ایسے میں اگر آپ معمول کی حکمرانی اور صرف زرِ مبادلہ کے ذخائر بڑھانے کے لیے بھیک مانگنے کے چکر میں پڑے رہے، تو حالات کی باگ آپ کے ہاتھ سے چھوٹ جائے گی۔ اپنے وسائل پر انحصار اور ان کو بروئے کار لانے کی بجائے آئی ایم ایف کی شرائط کے مطابق مہنگائی کا طوفان برپا کرکے قوم کے اندر نفرت کی بیچ بوئیں گے،تو وہی حال ہوگا کہ
نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم
………………………………………………………..
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com پر ای میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔