ریاستِ سوات میں عورتوں کے حقوق

سوات کے پٹھانوں کے زرعی جاگیردارانہ معاشرہ میں اقتصادی اور سیاسی قوت کا بنیادی ذریعہ زمین تھا۔ اور جس طرح شمالی عرب بدوؤں کے لیے اونٹ لازم و ملزم ہے، سوات کے پختونوں کے لیے سیاسی شناخت اور وابستگی اور…… انسانی گذر بسر اور خوشحالی کی بنیاد زمین رہی ہے۔ زمین سوات کے روایتی معاشرہ میں سلسلہ نسب کے مرد وارثوں میں تقسیم ہوتی تھی۔ زنانہ وارثوں کو زمین میں کوئی حصہ نہیں ملتا تھا۔ عورتیں زمینی وراثت کے حق سے ہی محروم نہیں تھیں بلکہ مرنے والے سے متعلقہ ان بیواؤں اور غیرشادی شدہ بیٹیوں اور بہنوں کو بھی اُن ہم جد وارثوں کی ملکیت سمجھا جاتا تھا، جنہیں بیٹا یا قریبی مرد وارث نہ ہونے کی وجہ سے مرنے والے کی املاک وراثت میں مل جاتی تھیں۔ عموماً ایسی عورتوں کو یہ جدی وارث ان کی مرضی کے خلاف بیاہ دیتے۔ اس رواج پر ریاست کے دور میں بھی عمل درآمد ہوتا رہا۔
ریاستی دور میں بھی وراثت کا رواجی قانون نافذ العمل رہا جس کی رُو سے عورتوں کو میراث میں حصہ نہیں ملتا تھا۔ میاں گل جہان زیب نے دیر سوات زمینی جھگڑوں کے انکوائری کمیشن کی کارروائی کے دوران بیان دیتے ہوئے کہا کہ وہ عورتوں کو شریعت کے مطابق وراثت میں حق دلانے میں ناکام رہے جب کہ باچا صاحب نے بیان دیا کہ عورتوں کو اس سلسلہ میں کوئی حق نہیں دیا جاتا تھا۔
میاں گل عبدالودود نے دعویٰ کیا ہے کہ عورتوں کو معاشرہ میں ان کا جائز مقام دے دیا گیا ہے اور انہیں شریعت کے مطابق ان کے حقوق دے دیے گئے ہیں۔ لیکن ان کی وراثت میں دیے گئے حق سے محرومی اور مہر میں دی گئی زمین پر لگائی گئی پابندیوں سے خود بہ خود اس دعویٰ کی تردید ہوجاتی ہے اور مذکورہ بالا زبردستی کی شادیاں بھی اسے غلط ثابت کرنے کے لیے کافی ہیں۔ درحقیقت عورتیں قبل از ریاست دور ہی کی طرح اُس کے دورِ حکومت میں بھی حقِ وراثت سے محروم رہیں۔1939ء میں عبدالودود نے ایک وصیت نامہ تیار کرکے اُس کی تصدیق اُس وقت کے صوبائی گورنر جارج کننگم اور 1949ء میں پاکستان کے مقرر کردہ گورنر سے کرائی جس میں اُس نے اپنی پوری جائیداد اپنے دو بیٹوں میں بانٹ دی۔ جس سے یہ حقیقت بالکل آشکار ہوگئی، کہ اپنے ترکہ کے سلسلہ میں بھی شریعت کی پیروی سے اُس نے اجتناب کیا۔
عورتیں مہر میں ملنے والی زمینوں کو نہ تو بیچ سکتی تھیں، اور نہ ہی انہیں رہن رکھ سکتی تھیں۔ وہ صرف اُس سے حاصل ہونے والی فصل استعمال کرسکتی تھیں۔ دیر سوات زمینی جھگڑوں کی انکوائری کمیشن کی اضافی رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ وراثت کے متنازعہ مقدمات قاضیوں کے پاس بھیجے جاتے تھے اور 1949ء کے بعد سے وہ شریعت کے مطابق ان کا فیصلہ کرتے تھے۔ 1937ء اور 1949ء کے درمیان وراثت کے مقدمات قاضیوں کے پاس بھیجے جاتے تھے، لیکن اُن کے زیادہ تر فیصلے کچھ لو اور کچھ دو کی بنیاد پر طے کیے جاتے تھے۔ 1949ء سے پہلے وراثت کا رواجی قانون نافذ العمل تھا۔ 1949ء میں اقتدار سنبھالنے کے بعد والی صاحب نے بھی ابتدا میں رواج کی بنیاد پر فیصلے کیے لیکن بعد میں کچھ وراثتی تنازعات میں عورتوں کو شرعی قانون کے مطابق ان کے حصے دیے۔ جب کہ بعض مقدمات میں صرف اُن زمینوں کی فصل استعمال کرنے کی انہیں اجازت دی لیکن اُن کے فیصلے اندھا دھند، الل ٹپ انداز میں کیے جاتے تھے۔ بعض مثالیں ایسی بھی ہیں کہ انہوں نے مردوں کو زنانہ ورثا کو ان کا حصہ دینے سے روک دیا۔ وہ ایسے سارے مقدمات قاضیوں کے حوالے نہیں کرتے تھے۔ نہ ہی انہوں نے اس ضمن میں اسلامی قانون کے نفاذ کو یقینی بنانے کے لیے کوئی اقدامات کیے۔ انہوں نے خود دیر سوات زمینی جھگڑوں کے انکوائری کمیشن کے روبرو اپنے بیان میں اس بات کو تسلیم کیا۔ سارے مقدمات میں والی کی کھلی اجازت کے بغیر زمین کو زنانہ وارثوں کے حوالے نہیں کیا جاسکتا تھا۔ اس طرح ان کے دورِ حکومت میں بھی جہاں تک زمین کی ملکیت اور وراثت کا تعلق ہے، تو باالعموم رواجی قانون ہی نافذ العمل رہا۔  (کتاب ریاستِ سوات از ڈاکٹر سلطانِ روم، مترجم احمد فواد، ناشر شعیب سنز پبلشرز، پہلی اشاعت، صفحہ 212 تا 214 انتخاب)