میاں گل عبدالودود اور میاں گل جہان زیب دونوں نے سماجی تنظیم کو تبدیل کرنے کے لیے کئی قدم اٹھائے۔ خوانین کے ذاتی قلعے مسمار کر دیے گئے اور ریاست بھر میں قلعوں کا ایک جال پھیلا دیا گیا جنہیں ٹیلی فون اور سڑکوں کے ذریعہ دارالحکومت سے ملا دیا گیا۔ جدید تعلیم کو متعارف کرایا گیا۔ ڈاک خانے کھول دیے گئے جن کے ذریعہ لوگ ہر طرف اپنے خطوط ارسال کرسکتے تھے۔ بہت سے نئے محکمے کھولے گئے، جو مختلف وظائف سرانجام دیتے تھے۔ منشی مقرر کیے گئے اور کچھ معین مدت کے بعد ایک گاؤں کی آبادی کا جا کر دوسرے گاؤں ہجرت کرنے کا زمانۂ قدیم سے چلا آنے والا نظام ختم کر دیا گیا۔
نئی اقتصاد ی تبدیلیوں اور منڈی کی قوتوں کے زیرِ اثر تاجر پیشہ طبقہ نے ممتاز حیثیت حاصل کرلی۔ ان میں بہت سے معاشرہ کی قیادت کرنے والے ان لوگوں سے زیادہ خوشحال ہوگئے جن کی برتری کا انحصار صرف زمینی جائیداد پر تھا۔ باالعموم سارے پختون اور باالخصوص سارے خوانین اور مَلَک اپنی روایتی حیثیت کو برقرار رکھنے کی کوشش کرتے رہے، لیکن معیارِ زندگی کو بہ حال رکھنے کے لیے درکار وسائل میں روز افزوں اضافہ نے اس کو بہت دشوار بنا دیا۔ انہیں اپنی زمینیں بیچنی پڑیں، جو تاجر پیشہ طبقہ نے خرید لیں۔ 1955ء کے اعداد و شمار سے اس تبدیلی کا بہ خوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے جب مینگورہ میں اپنے دوتر کا چھٹاحصہ پختونوں نے نئے دولت مند تاجر پیشہ طبقہ کے ہاتھ فروخت کردیا۔
روایتی معاشرہ میں حجرہ صرف ایک مردانہ رہائشی جگہ نہیں تھا بلکہ اس سے مہمان خانہ کا کام لیا جاتا تھااور یہ سماجی سرگرمیوں، تبادلۂ خیال اور غیر شادی شدہ مردوں کے سونے کے لیے استعمال میں لایا جاتا تھا۔ اس کی حیثیت ایک کثیر المقاصد سماجی مرکز کی تھی۔ یہ نہ صرف شادی کی باراتوں کا نقطۂ آغاز تھا بلکہ گاؤں میں ہر جنازہ کا جلوس بھی یہاں سے قبرستان کا رُخ کرتا تھا۔ زندگی کے نئے طور طریق نے اس کے روایتی کردار کو آہستہ آہستہ دھندلا دیا۔ وقت کے ساتھ ساتھ یہ روایتی سماجی سرگرمیوں کا مرکز نہیں رہا۔ اس کی جگہ نجی ڈیروں نے لے لی، لیکن اب بھی اس کی کچھ روایتی خاصیتیں موجود ہیں۔
جدید تعلیم یافتہ طبقہ میں روز افزوں اضافہ نے ایک اور جہت میں اپنا اثر دکھایا۔ وہ مزیدذہنی آزادی کا طلب گار تھا، اور طرزِ کہن کے مطابق خود کو ڈھالنے کے لیے تیار نہیں تھا۔ افقی اور عمودی ہِل جُل کی وجہ سے پیشوں میں تبدیلی واقع ہوئی۔ ’’بہت سے لوگوں نے باپ دادا کا پیشہ ترک کرکے نئے پیشے جیسے اجارہ داری (زمین پٹّے پر لے کر کاشت کرنا)، دکان داری (سبزی ترکاری ، کریانہ، مٹھائی، درزی، حجام، چائے، ہوٹل کا کاروبار، موٹر ڈرائیونگ اور مشینوں کی مرمت وغیرہ کی دکانیں)شروع کی۔‘‘
قبل از ریاست دور میں نہ تو یہاں قصائی تھا نہ دھوبی اور نہ ہی درزی۔ عورتیں ہی کپڑے دھونے اور سینے کا کام گھروں پر کرتی تھیں۔ قصائی بیرونِ ریاست سے لائے گئے۔ موسمِ گرما میں لوگ گوشت نہیں کھاتے تھے بلکہ وہ وافر مقدار میں اُگنے والی سبزیاں کھایا کرتے تھے۔ اس دوران میں قصائی فارغ بیٹھے رہتے تھے۔ تاہم انہیں پابند بنا دیا گیا کہ وہ گرمیوں میں ذبح کریں گے بصورتِ دیگر ان کو موسمِ سرما میں اس کی اجازت نہیں ہوگی ۔ پہلے سبزیاں تجارتی مقاصد کے لیے نہیں اگائی جاتی تھیں لیکن اب اس کی حوصلہ افزائی کی جانے لگی اور اسے ایک قرین عمل تجارتی شکل دے دی گئی۔
ایلیزیبتھ بالنیوز نے بتایا ہے کہ ’’بھیک مانگنا ریاست میں ایک بڑا جرم گردانا جاتا تھا۔‘‘ میاں گل جہان زیب نے اسے ختم کرنے کے لیے بہت سے اقدامات کیے بلکہ ایک بھکاری عبدالرحمان سے تحریر ی عہد لیا تھا کہ وہ آئندہ بھیک نہیں مانگے گا۔
میاں گل عبدالودود اور میاں گل جہان زیب نے ہر لحاظ سے معاشرہ کو بدلنے اور اس میں ایک قسم کی باقاعدگی پیدا کرنے کی کوشش کی۔ لوگوں کے ذاتی رویوں تک میں بدلاؤ لانے کے جتن کیے گئے۔ شادیوں کو بھی حدود وقیود کا پابند بنایا گیا۔ مہر کی رقم سے لے کر ولیمہ کی دعوت میں آنے والے مہمانوں کی تعداد مقرر کر دی گئی۔ نکاح نامہ کو لازمی قرار دیا گیا اور ایک فرمان کے مطابق نکاح نامہ نہ ہونے کی صورت میں عورت کو شوہر سے مہر کی رقم نہیں ملے گی۔ اسی طرح کسی کی وفات کے موقع پر تقسیم ہونے والی رقم (اسقاط)، تعزیت کے لیے ایک گھرانا سے جانے والے افراد کی تعداد، آنے والوں کی تواضع چائے یا کھانے سے ہو۔ ان سب معاملات کے لیے قوانین بنائے گئے۔ ختنہ اور تیسری شادی( جس کے لیے وجوہات کا بیان اور حکمران کی اجازت لازمی تھی) کے ضمن میں بھی فرمان جاری کئے گئے۔ یہ آخری فرمان لگتا ہے ایوبی دور کے پاکستان میں عائلی قوانین کے نفاذ کی پیروی کرتے ہوئے جاری کیا گیا۔ ایک موقع پر مہمان کے لیے حجرہ میں چائے لانے پر پابندی عائد کر دی گئی تھی۔ حالاں کہ اُن سارے احکامات پر مکمل طورپر عمل درآمد نہیں کیا گیا، لیکن اس ضمن میں کسی حد تک کامیابی ضرور حاصل ہوئی۔
میاں گل جہان زیب کے عہدِ حکومت میں سیدومینگورہ روڈ پر تانگہ چلانا منع تھا۔ اسی طرح دارالحکومت میں کتا پالنا اور مرغا رکھنا ممنوع تھا۔ مبادا کہیں ایسا نہ ہو کہ ان دونوں کی آوازوں کا شور شاہی دفتر یا شاہی محل کا پُرسکون ماحول غارت کر دے۔ اس بنا پر یہاں لاؤڈ سپیکر کا استعمال بھی ممنوع تھا۔ سڑک کے کنارے پیشاب کرنے پر سخت پابندی تھی اور پیشاب کرنے کے بعد استنجا کی غرض سے ڈھیلے یا کاغذ سے خود کو خشک کرنے کا برسرِ عام عمل قابلِ سزا جرم تھا۔ تہمد باندھنے اور پان کھانے پر بھی پابندی تھی۔ (کتاب ریاستِ سوات از ڈاکٹر سلطانِ روم، مترجم احمد فواد، ناشر شعیب سنز پبلشرز، پہلی اشاعت، صفحہ 210 تا 212 انتخاب)