کبھی بچے کی مرضی جانی ہے؟

  احمد فرہاد کی ترجمہ شدہ کتاب ’’کامیابی‘‘ میں ایک چھوٹے سے واقعہ کا ذکر ہے، ملاحظہ ہو:
کتوں کی خوراک بنانے والی ایک کمپنی میں زور و شور سے میٹنگ جاری تھی۔ ہر کوئی دلیلیں دیے جا رہا تھا کہ کتوں کو کیا پسند ہے ؟ ایسے میں چیئرمین نے ایک ملازم سے پوچھا کہ اس کی رائے میں کتے کو کیا پسند ہے؟ ملازم نے جواباً کہا: ’’جناب، مَیں کوئی کتا نہیں ہوں۔ کیوں نہ کچھ کتے لائے جائیں اور کھانے کی مختلف چیزیں ان کے سامنے رکھی جائیں۔ اس طرح ہمیں خود پتا چل جائے گا کہ انہیں کیا مرغوب ہے ۔‘‘
یہ مثال اچھی ہو یا بری یہ الگ بحث ہے، مگر اسے ایک کلیہ سمجھ کر عام زندگی میں بچوں پر ایپلائی کیجیے۔ جب بھی اپنے بچے کو کھانے یا کھیلنے کی کوئی چیز خرید کر دینی ہو، یا جب بھی اسے سیر کے لیے باہر لے کر جانا ہو، یا پھر سب سے بڑھ کر یہ کہ اس کے مستقبل کا فیصلہ کرنا ہو، تو اپنی خواہش پوری کرنے کے ساتھ ساتھ بچے سے بھی پوچھنا چاہیے کہ وہ کیا چاہتا ہے؟ اگر ہم ایسا نہیں کریں گے، تو بچہ ہمارا دل رکھنے کے لیے کھانے یا کھیلنے کی چیز تو لے لے گا، مگر اسے دلی خوشی ہر گز نہیں ملے گی۔ وہ اپنی مرضی کے خلاف سیر کے لیے بھی چلا جائے گا، مگر لطف اندوز ہر گز نہیں ہوگا۔ اس طرح وہ ہماری خواہش کے مطابق ڈاکٹر، انجینئریا پھر کوئی بڑا افسر تو بن جائے گا، مگر زندگی کو اپنے طریقے سے انجوائے نہیں کرسکے گا۔ ویسے بھی آگے چل کر زندگی بچے نے گزارنا ہوتی ہے ، ہم نے نہیں۔ کیوں کہ ہم تو اپنے حصے کی زندگی جی چکے ہوتے ہیں اور اپنے ادھورے خوابوں کا طوق بچے کے گلے میں ڈال دیتے ہیں۔ میرے خیال میں تو شائد ہی اس سے بڑا ظلم کوئی اور ہو!
اس لیے بچوں کی مرضی جاننا ضروری ہے۔

………………………………………………………

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com پر ای میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔