عہدِ سلاطین و مغل دور کی شہ خرچیاں

ہندوستان میں عہدِ سلاطین اور مغل بادشاہوں کے دربار میں اور ان کے امرا کے ہاں جو دعوتیں ہوتی تھیں، اس کی تفصیلات اس عہد کی معاصر تاریخوں سے مل جاتی ہے۔ اس حوالہ سے ضیاء الدین برنی نے "تاریخِ فیروز شاہی” میں لکھا ہے کہ سلاطین میں یہ دستور تھا کہ وہ علما کے ساتھ کھانا کھاتے تھے۔ کھانے میں امرا بھی شرکت کرتے تھے۔ بقول برنی کے امرا میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کا رواج تھا۔ اگر کوئی یہ سنتا کہ ایک امیر نے دسترخوان پر پانچ سو آدمی بلائے ہیں، تو وہ کوشش کرتا کہ اس کے ہاں ایک ہزار آدمی کھانا کھائیں۔ اس کا نتیجہ برنی کے قول کے مطابق یہ تھا کہ اس زمانے کے خان، ملک اور بزرگ اپنی سخاوت کی وجہ سے مقروض رہتے تھے اور ان کے پاس سونے چاندی کا نام و نشان نہیں ہوتا تھا۔ اخراجات پورے کرنے کے لیے یہ ملتانیوں اور ساہوکاروں سے قرض لیتے رہتے تھے۔
جب کیقباد اور بغرا خاں کی ملاقات ہوئی، تو اس موقع پر دعوت کے جو انتظامات کیے گئے، تو دسترخواں پر ایک ہزار سے زیادہ کھانوں کی اقسام تھیں۔ شربتِ قند کے سیکڑوں پیالے تھے۔ انواع و اقسام کے حلوے تھے، نانِ تنک، نانِ تنوری، اور پلاؤ کی کئی قسمیں تھیں۔ بٹیر، تیتر اور دوسرے شکاری پرندوں کا گوشت تھا۔ دعوت کے آخر میں لوگوں کو پان بھی دیا گیا۔ (ڈاکٹر مبارک علی کی کتاب ’’تاریخِ کھانا اور کھانے کے آداب‘‘ مطبوعہ ’’تاریخ پبلی کیشنز لاہور‘‘ پہلی جلد 2013ء، صفحہ نمبر 80-79 سے انتخاب)