کیلاش قبیلے کے لوگ مختلف قسم کے توہمات کا شکار ہیں۔ جیسا کہ پہلے ذکر ہوچکا کہ کیلاش قبیلے کے لوگ پہلے پہل اپنے مردوں کو تابوتوں میں کھلا چھوڑ کر رکھ دیا کرتے تھے۔ بعد میں یہ طریقہ تبدیل ہوا اور ان کو دفنایا جانے لگا۔ اس طرح کیلاش قبیلے میں ایک پیشوا ہوا کرتا تھا جو آنے والے وقت کی پیشین گوئی کرتا تھا۔ وہ قبیلے کے لیے ایک مقدس شخصیت کی حیثیت رکھتا تھا، مگر اب کئی عشرے گزر گئے ہیں، ان میں کوئی پیشین گوئی والی شخصیت نمودار نہیں ہوئی، جس کی وجہ کیلاشی اپنے مذہب پر مکمل عمل درآمد نہ ہونا گردانتے ہیں۔ کیلاشیوں کے مطابق زیادہ تر آبادی نے اپنا مذہب بھلا دیا ہے اور وہ اپنے اسلاف کے بنائے ہوئے اصولوں پر سو فیصد عمل در آمد نہیں کرتے۔ اس وجہ سے پیشواؤں کی آمد کا سلسلہ رُک گیا ہے۔ البتہ قاضی لوگ موجود ہیں جو مذہبی رہنما ہوتے ہیں اور فیصلے بھی کرتے ہیں۔ نیز مذہبی رسومات بھی ادا کرتے ہیں۔
ایک مقامی کیلاشی اقبال شاہ کے مطابق ان کا آخری پیشوا جس کا نام ’’باجوو‘‘ تھا، تیس یا چالیس سال قبل فوت ہوا تھا۔ اس نے مرنے کے بعد تین پیشین گوئیاں کی تھیں جو تمام کی تمام درست ثابت ہوئی تھیں۔ انہوں نے کیلاشی قبرستان میں اس کا تابوت ہمیں دکھایا، جو دوسری تابوتوں سے بڑا تھا، اس پر کندہ کاری بھی کی گئی تھی۔ اقبال شاہ کے مطابق ان کے پیشوا نے پہلی جو پیشین گوئی کی تھی وہ افغانستان کے بارے میں تھی۔ انہوں نے کہا تھا کہ افغانستان کا دروازہ پھٹ گیا ہے اور اب افغانستان میں امن قائم نہیں ہوگا۔ کیلاشیوں کا افغانستان کے ساتھ گہرا تعلق ہے جس طرح بتایا گیا کہ ان کی نسل افغانستان کے صوبۂ نورستان میں کافی مستحکم تھی، جس پر مسلمانوں نے حملہ کیا تھا اور ان کی نسل کے کئی سردار مارے گئے تھے۔ ان میں سے کچھ ہجرت کرکے پاکستان کے علاقے چترال میں قیام پذیر ہوئے تھے۔ دوسری پیشین گوئی یہ کی گئی تھی کہ میں مرنے کے بعد دوبارہ زندہ ہوں گا اور آپ لوگوں کو ایک اہم پیغام دوں گا۔ تیسری پیشین گوئی یہ تھی کہ اگر میرا تابوت بائیں طرف گرا، تو میرے خاندان کے تمام لوگ اپنا مذہب تبدیل کریں گے اور اگر دائیں طرف گرا، تو کوئی مذہب تبدیل نہیں کرے گا۔ اقبال شاہ کے مطابق ان کی پہلی پیشین گوئی افغانستان کے بارے تاحال درست ہے۔ اس نے یہ بات اس وقت کہی تھی جب سوویت یونین نے افغانستان پر حملہ کیا تھا۔ دوسری پیشین گوئی بھی درست ثابت ہوئی۔ جب وہ فوت ہوئے تھے، تو ان وصیت کے مطابق ان کے تابوت کا ڈھکن بند نہ کرنا تھا، اس پر کسی قسم کا بھاری پتھر وغیرہ نہیں رکھنا تھا، مگر کیلاشیوں نے اس کے برعکس ان کے تابوت کو بند کر دیا۔ کیلاشی قبرستانوں میں جانے سے بہت ڈرتے ہیں اور ان کا عقید ہ ہے کہ وہ مرنے والوں کی روحوں کے لیے خیرات وغیرہ گھروں میں ہی کرتے ہیں، جب کیلاشیوں نے اپنے رواج کے مطابق ناچنے گانے کے دو دن بعد ان کو دفن کیا اور واپس چلے گئے، تو دوسرے روز ان کی قبر سے آوازیں آنا شروع ہوگئیں۔ انہوں نے بہت کوشش کی کہ وہ اُٹھ جائیں، مگر ان کے تابوت کو کیلوں سے بند کر دیا گیا تھا۔ اس پر بڑے بڑے پتھر رکھ دیے گئے تھے۔ اس کی آواز کو لوگوں نے سنا تھا، مگر کسی کو قبرستان جانے کی ہمت نہیں ہو رہی تھی۔ اس وجہ سے وہ اٹھ نہ سکا اور نہ ہی اس کا پیغام کیلاشیوں سے سنا گیا۔ تیسری پیشین گوئی کے مطابق اُن کا تابوت بائیں طرف گرا تھا، اِس وقت بھی تابوت کیلاشیوں کے قبرستان میں پڑا ہے۔ اقبال شاہ کے مطابق ’’باجوو‘‘ کا بہت بڑا خاندان تھا۔ وہ سب کے سب اب مسلمان ہوگئے ہیں، ماسوائے ایک بیٹے کے جو تاحال کیلاشی ہے، مگر وہ بھی عمر رسیدہ ہوچکا ہے۔ اقبال شاہ کے مطابق ان کے بزرگوں نے بتایا تھا کہ ’’باجوو‘‘ سے قبل 12 یا 13 پیشوا گزر چکے ہیں، جو اس سے بھی زیادہ معتبر اور سیانے تھے۔ اب ان کے ہاں پیشواؤں کی آمد کا سلسلہ رک گیا ہے۔
کیلاش قبیلے کے ایک پچاس سالہ رہنما ’’قاضی استور‘‘ حیات ہیں، جن کا بمبوریت بازار میں اپنا چھوٹا سا ہوٹل ہے۔ اس کی زمین بھی کافی ہے، خود محنت مزدوری بھی کرتے ہیں۔ ان کے جوان بچے بھی ہیں۔ ان کی بیوی بھی ان کے ساتھ ہوٹل کے کاموں میں ہاتھ بٹاتی ہے۔ موصوف کیلاش قبیلے کے لوگوں کے فیصلے بھی کرتے ہیں۔ مذہبی رسومات بھی ادا کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ان کو درست معلوم نہیں کہ کیلاش قبیلہ یہاں کب سے آباد ہے؟ مگر کیلاش کی پوری وادی کیلاشیوں پر ہی مشتمل تھی۔ ساتھ افغانستان کے نورستان میں بھی کیلاش قبیلے رہتے تھے۔ پھر وہاں پر مسلمانوں نے حملہ کیا۔ کیلاشی سارے چترال منتقل ہوگئے۔ ان کے آبا ؤ اجداد یہاں پر حکمران تھے۔ تبھی تو کیلاشی شاہی خاندانوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ یہاں پر دو بڑے قبیلے آباد ہیں، جو کہ خود کو شاہی قبیلے سمجھتے ہیں۔ بعد میں نورستان سے مسلمان چترال میں داخل ہوئے۔ اس طرح مختلف وقتوں میں کیلاشی مسلمان ہوتے گئے۔ اب حالت یہ ہے کہ کیلاشی کم ہوگئے ہیں اور مسلمان زیادہ۔
قاضی استور نے یہ بھی کہا کہ جب کوئی مسلمان ہوتا، تو وہ کیلاشی گاؤں چھوڑ دیتا تھا، مگر اب مسلمانوں نے اس گاؤں میں کئی محلے بنا رکھے ہیں۔ ان کے گھر ہمارے گھروں سے فاصلہ پر ہیں۔ کئی مسلمان اور کیلاشی رشتہ دار ہیں۔ مسلمان اور کیلاشی کئی موقعوں پر ایک دوسرے سے ملتے ہیں۔ دونوں ایک دوسرے کے تہواروں میں حصہ بھی لیتے ہیں۔ اس طرح بھی ہے کہ ایک مسلمان ہے تو اس کا بھائی کیلاشی، باپ مسلمان ہے تو بیٹا کیلاشی ہے۔ ساس مسلمان، تو بہو کیلاشی ہے۔ اس طرح کی کئی مثالیں موجود ہیں۔
مزے کی بات یہ ہے کہ قاضی استور کا ایک بھائی بھی مسلمان ہوچکا ہے۔ کچھ عرصے تک یہ ناراض ہو کر ایک دوسرے سے نہیں ملتے، مگر پھر بھی خون کے رشتے ہیں، مشکل وقت میں ایک دوسرے کے کام آتے ہیں۔ ان کی جائیدایں اور باغات مشترک ہیں۔ آمدن کے ذرائع مشترک ہیں۔
قاضی استور کے مطابق اب اس کا مسلمان بھائی دوسرے محلے میں رہتا ہے۔ ’’مسلمانوں اور ہمارے مذہب میں کافی فرق ہے۔ ہم بھی خدا سے مانگتے ہیں، خدا پر یقین رکھتے ہیں۔ جب ہم میں کوئی مر جاتاہے، تو ہم بھی جانوروں کی قربانی دیتے ہیں اور میت کی بخشش کے لیے دعا کرتے ہیں، مگر ہمارے اور مسلمانوں کی رسوم میں فرق ہے۔ ہم اپنے مذہب کے بارے میں اپنے بچوں کو بتاتے ہیں، مگرا س کے لیے کوئی مخصوص جگہ یا سکول نہیں ہے۔ ہمارے کیلاشی عام سکولوں میں جاتے ہیں۔‘‘
جب ان سے پوچھا گیا کہ کیلاش میں لڑکیاں مسلمان ہوتی ہیں، تواس پر ان کو کوئی اعتراض ہے؟ انہوں نے جواباً کہا کہ ’’سب کو آزادی ہے۔ اگر کوئی لڑکی کسی لڑکے کو پسند کرتی ہے، تو ہم پابندی نہیں لگاتے، اس کی اپنی زندگی ہے۔ اسے اپنی مرضی کے مطابق زندگی گزارنے کا حق ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ کوئی مسلمان نہ ہو، وہ کیلاشی ہو، مگر پھر بھی وہ مانتے نہیں۔ اگر یہ سلسلہ اس طرح جاری رہا، تو سارے کیلاشی ختم ہوجائیں گے۔ اس پر ہمیں دکھ ہوگا۔ کچھ عرصہ قبل کیلاشی اتنی بڑی تعداد میں مسلمان نہیں ہوا کرتے تھے، لیکن اب ہو رہے ہیں۔ اس کی بڑی وجہ یہاں دی جانے والی تعلیم اور ٹی وی چینل ہے کہ وہ اپنا مذہب چھوڑ کر مسلمان ہوجاتے ہیں۔ جب لڑکیاں تعلیم حاصل کرتی ہیں، تو اس دوران میں ان کا تعلق بن جاتا ہے۔ وہ اس تعلق کو نبھانے کے لیے مسلمان ہو جایا کرتی ہیں اور علاقہ چھوڑ کر مسلمانوں کے ساتھ رہنے لگتی ہیں۔ (جاری ہے)
………………………………………………………..
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com پر ای میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔