آن لائن پروگرامز کیوں ضروری ہیں؟

خدیجہ نیازی کا تعلق لاہور سے ہے۔ ان کی موجودہ عمر 18 سال کے لگ بھگ ہے، لیکن چھے سال پہلے یہ صرف بارہ سال کی تھیں۔ ارفع کریم رندھاوا مرحومہ کی طرح یہ بچی بھی کمپیوٹر ایکسپرٹ ہے۔ 2013ء میں سوئٹزرلینڈ میں ورلڈ اکنامک فورم نے سالانہ اجلاس منعقد کیا، جس میں آئی ٹی کے شعبہ سے متعلق اہم شخصیات نے شرکت کی۔ جن میں مائیکرو سوفٹ کے بانی بل گیٹس، ایم آئی ٹی کے صدر رافیل ریف، وکی پیڈیا کے بانی جمی ویلز، لیری سمر، ڈیفنے کولر اور پیٹر تھائیل جیسے عالی دماغ شریک ہوئے۔ ان سب کی خاص نشستوں کے پہلو میں مندرجہ بالا بچی خدیجہ نیازی کی کرسی بھی رکھی گئی۔ ایک ترقی پذیر ملک کی ایک ننھی سی لڑکی کو یہ رتبہ کیسے ملا؟ آن لائن لرننگ کورسز کے ذریعے…… جی ہاں! اس بچی نے آڈاسٹی، مصنوعی ذہانت کے کورسز اور آسٹرو بائیالوجی کے آن لائن کورسز میں ٹاپ کیا، تو مغرب کے عالی دماغوں کو اس کے کارنامے مانے بنا کوئی چارہ نہیں تھا۔ آن لائن کورسز بارے معلومات سے پہلے مضمون کی تمہید باندھنا ضروری ہے۔
گلوبلائزیشن نے دورِ حاضر میں جہاں کئی ایک تصورات بدلے ہیں، وہیں تعلیمی تصور بھی تبدیل کر کے رکھ دیا ہے۔ وقت جس رفتار سے آگے کی جانب بڑھ رہا ہے، اس سے کہیں زیادہ رفتار سے نظریہ و نظام تعلیم میں بھی تبدیلی آ رہی ہے۔ پرانے طریقے اور تصورات فرسودہ شمار کر کے گرد ماضی بنائے جا رہے ہیں۔ ڈیجیٹل دور کی تعلیم بھاری بھر کم بستوں، موٹی موٹی کتابوں اور رنگا رنگ کاپیوں سے مبرا ہے۔ قلم، پنسل کی جگہ ماؤس اور کاغذ کی جگہ ٹچ سکرین نے لے لی ہے۔ آج کا طالب علم بانس اور سر کنڈے کے قلم، موٹے اور باریک قط کو نہیں پہچانتا، جب کہ اسے یونی کوڈ اور اِن پیج فارمیٹ کا بخوبی علم ہے۔ وہ ایک سمارٹ فون یا لیپ ٹاپ کے ذریعے دنیا بھر کا علم حاصل کر سکتا ہے۔ پڑھا لکھا طبقہ لائبریریز اور بک کارنرز پر رُلنے کی بجائے آن لائن مکتبہ ڈھونڈنے کا عادی ہوتا جا رہا ہے۔ مکتبۃ الشاملہ، مکتبہ جبریل جیسے سافٹ ویئرز کی موجودگی میں تحقیق و تصنیف کا کام نہ صرف آسان بلکہ تیز ترین ہو گیا ہے۔ اکثر یونیورسٹیز میں شعبۂ اسلامیات میں ایم فل اور پی ایچ ڈی کرنے والے امیدواروں کے لیے یہ سافٹ ویئرز ضرورت بن گئے ہیں۔
ایسے میں اکیڈمیز اور انسٹیٹیوٹس کا کام بھی کافی متاثر ہوا۔ کیوں کہ آن لائن شارٹ کورسز کم وقت، تھوڑے سرمائے اور دیگر جھنجھٹوں سے بچاتے ہوئے گھر بیٹھے بڑا فائدہ دینے لگے ہیں۔ میں مانتا ہوں کہ آن لائن کورسز کی آڑ میں بڑے بڑے دھوکے بھی ہو رہے ہیں، علم و فن کے سادہ لوح پیاسوں کو جی بھر کے لوٹا جا رہا ہے، لیکن بعض مستند ادارے یہ کام پوری ایمان داری سے سر انجام دے رہے ہیں۔ مثلاً ’’گوگل گرو‘‘ (Google Grow) کے نام سے گوگل جیسی مشہور کمپنی مفت میں آن لائن کورسز کر وا رہی ہے۔ اسی طرح کورسیرا، ای ڈی ایکس، موکس، لنکڈاِن، سٹینفورڈ، ایم آئی ٹی اور کارنیگی میلن دنیا بھر کے لاکھوں شائقین کی علمی پیاس بجھا رہے ہیں۔ کچھ لوگ یوٹیوب سے بھی استفادہ کر رہے ہیں۔ لوگ آن لائن کورسز کو کتنی ترجیح دیتے ہیں؟ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ 2012ء میں ایم آئی ٹی کے صرف ایک کورس میں ایک لاکھ پچپن ہزار لوگ شریک ہوئے۔ ان کورسز پر لوگوں نے اعتماد کا اظہار بھی کیا ہے، کیوں کہ پڑھانے والے پروفیسر بھی مانے ہوئے اہلِ علم ہوتے ہیں۔ مثلاً کورسیرا کمپنی کے کورسز "John Hapcin University” کے پروفیسرز پڑھاتے ہیں۔ شاید اسی لیے سٹین فوڈ یونیورسٹی کے صدر جان ہینیسی نیو یارک ٹائمز کو انٹرویو دیتے ہوئے بول پڑے کہ ’’مجھے آن لائن کورسز کا ایک سونامی آتا دکھائی دے رہا ہے۔‘‘
پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک میں بھی آن لائن کورس بارے شعور بیدار ہوا ہے۔ اکتوبر 2013ء میں پاکستان نے دنیا بھر کے مفت اور بہترین آن لائن کورسز کے لیے ایک میٹا سرچ انجن تیار کیا، جس سے گھر بیٹھے کئی قسم کے کورسز کیے جا سکتے ہیں اور وہ بھی دنیا بھر کی اعلیٰ اور بہترین یونیورسٹیز سے۔ جن کے سرٹیفکیٹس کی قدر سونے کے انڈے کی مانند ہے، جنہیں استعمال میں لاتے ہوئے دنیا کے کسی بھی کونے میں بہترین نوکری حاصل کی جا سکتی ہے۔
آن لائن کورسز کے ذریعے وہ مہاجرین بہت فائدہ اٹھا سکتے ہیں، جو امیگریشن مسائل کی وجہ سے کسی ادارے میں باقاعدہ تعلیم حاصل نہیں کرسکتے۔ اسی طرح وہ لوگ جنہیں باقاعدہ تعلیم حاصل کرنے کے لیے وقت نہیں ملتا یا انہیں ملازمت و کاروبار وغیرہ مصروف رکھتے ہیں، وہ لوگ بھی اس سے کما حقہ فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ خود مجھے عرصۂ دراز سے لکھاری بننے کا شوق تھا، جو قلتِ وقت اور اپنے علاقے میں کسی ماہر لکھاری کے نہ ہونے کی وجہ سے پورا نہ ہو سکا۔ بالآخر انور غازی صاحب سے تعارف ہوا، ان کی آن لائن اکیڈمی کے ذریعے یہ مراد بر آئی۔ صرف تین ماہ کے قلیل عرصے میں وہ کچھ سیکھنے کو ملا جو ایم اے صحافت کر کے بھی شاید نہ ملتا۔ الحمد للہ، دو سال کے قلیل عرصہ میں چار کتابیں اور سیکڑوں مضامین لکھ چکا ہوں، جن میں سے بعض عالمی معیار کے جرائد میں چھپ چکے ہیں اور بعض پر انعام بھی مل چکا ہے، فَلِلہِ لحمد۔
اسی طرح پچھلے دنوں فیس بُک پر ارسلان سیال صاحب سے ملاقات ہوئی، جو ادارہ ’’دارالارشاد راولپنڈی‘‘ کی جانب سے پراجیکٹ منجمنٹ پر آن لائن کورس کروا رہے تھے۔ صرف دِہ روزہ کورس اتنا مفید ثابت ہوا کہ کسی یونیورسٹی میں دو سال داخل رہ کر بھی نہ ہو سکتا۔ ابتدائی باتوں سے لے کر انتہائی پیچیدہ مسائل حل کرنے تک انہوں نے سب کچھ بڑے آسان الفاظ میں سکھایا، اسائنمنٹس حل کروائیں اور ان کی جانچ پرکھ کر کے باقاعدہ اسناد بھی جاری کیں۔
قارئین، خلاصہ یہ کہ حالات بتا رہے ہیں کہ ہمیں آئی ٹی کے شعبے میں آگے بڑھنا ہوگا۔ مغربی ممالک روزانہ کی بنیاد پرکروڑوں ڈالر آن لائن کورسز اور فری لانسنگ کے ذریعے کما رہے ہیں۔ مثلاً امریکہ میں 1.4 ارب ڈالر کا سرمایہ صرف آن لائن فری لانسنگ والے کما رہے ہیں، دیکھنا یہ ہے ، اس میدان میں ہم کیا کرتے ہیں؟ ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہتے ہیں یا پھر آگے بڑھ کر اس میدان کے شہ سوار بنتے ہیں؟
یاد رہے! وقت انہیں تاریخ میں جگہ دیتا ہے جو محنت کرنے والے ہوتے ہیں۔ نکموں، سست روؤں اور گپیں ہانکنے والوں کو (خواہ سوشل میڈیا پر ہوں یا اپنے محلے میں) تاریخ ہمیشہ کال کوٹھڑیوں میں ہی پنا ہ دیتی ہے۔

………………………………………………………………

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com پر ای میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔