انصاف کا علم بلند کرنے والی حکومت کا مختصر سا جائزہ

بھلے ہی کوئی مجھ سے متفق نہ ہو، مگر میں یہ کہتے ہوئے حق بجانب ہوں کہ تحریک انصاف کی حکومت کو جو چیز ممتاز کرتی ہے، وہ ان کی حدوں کو چھوتی بے شرمی، ڈھٹائی اور منافقت ہے۔ اس حکومت کے پاس ایک منشی سے زیادہ کے اختیارات نہیں۔ عمران خان کو چار سیٹوں کی اکثریت والا ایسا اقتدار دیا گیا ہے جو ریت کے ٹھیلے کے اوپر قائم ہے، وہ تھوڑا سا ہلنے کی کوشش کرے گا، تو پوری عمارت گر جائے گی۔ اس حکومت نے بر سر اقتدار آتے ہی ’’سادگی‘‘ کا جو بے ہودہ ڈراما شروع کیا ہے۔ اس سے پتا چلتا ہے کہ ان کے پاس کوئی برائے نام ’’اصلاحاتی معاشی پالیسی‘‘ بھی نہیں۔ علاوہ ازیں اس ’’آسٹریٹی‘‘ کی آڑ میں جہاں بڑے معاشی حملوں کے لیے عوام کی ذہن سازی کی جا رہی ہے، وہاں آئی ایم ایف کو بھی اطاعت کا پیغام دیا جا رہا ہے۔ بڑی عیاری اور چالاکی سے میڈیا پر ساری بحث کا موضوع پروٹو کول کی گاڑیوں اور اجلاسوں میں چائے کے ساتھ پیش کیے گئے بسکٹوں کی تعداد کو بنا دیا گیا ہے۔ کبھی وزیراعظم ہاؤس کی دہائیوں پرانی کھٹارا گاڑیوں، بھینسوں، اور ناکارہ ہیلی کاپٹروں کی نیلامی کو بڑا کارنامہ بنا کر پیش کیا جا رہا ہے، کبھی گورنر ہاؤس اور پریزڈنٹ ہاؤس کے ’’سبز باغ‘‘ عام لوگوں کو دکھانے کو انقلابی اقدام قرار دیا جا رہا ہے۔ بالفرض ریاستی سطح پر اگر ’’مطلق سادگی‘‘ اپنالی جائے، تو بھی اس معیشت کے دیوہیکل خساروں میں ایک فیصد کی کمی نہیں لائی جاسکتی۔ لہٰذا یہ واردات جو ماضی کے ادوار میں بھی کئی طریقوں اورکئی ناموں سے کی جاتی رہی ہے، چند مہینوں سے زیادہ نہیں چل سکتی۔ اسی طرح بھر پور میڈیا مہم کے ذریعے عوام کو ’’ڈیم‘‘ کی بتی کے پیچھے لگانے کی انتہائی بھونڈی کوشش بھی کی جا رہی ہے، جس میں چیف جسٹس صاحب پیش پیش ہیں۔ وہ (ماشاء اللہ) عدالتوں میں دہائیوں سے لٹکے لاکھوں مقدمات نپٹانے کے سوا باقی ہر کام کا بیڑا اٹھائے ہوئے ہیں۔
پاکستان میں مسئلہ پانی محفوظ کرنے سے پہلے بچانے کا ہے، اور پانی ضائع ہونے کی سب سے بڑی وجہ یہاں کا فرسودہ آبپاشی نظام ہے۔ اس طرح آج ڈیموں سے ہٹ کر پانی کو محفوظ کرنے اور بجلی بنانے کے جدید طریقے بھی موجود ہیں، جو زیادہ ماحول دوست بھی ہیں اور سستے بھی۔ علاوہ ازیں سنجیدہ ماہرین کی رائے ہے کہ مقررہ جگہ کے زلزلے کے خطرات سے متاثرہ ہونے کی وجہ سے دیامیر بھاشا ڈیم کی تعمیر تکنیکی طور پر بھی ممکن نہیں، لیکن ہم ان تمام نِکات کو یکسر مسترد بھی کر دیں، تو بھی چندے سے ڈیم بنانے کی بات اس قدر بھونڈی ہے کہ یہاں کی ریاستی اشرافیہ اور سیاسی حکمرانوں کی جہالت اور بے شرمی کا پتا ہی دیتی ہے۔ بالخصوص عمران خان کے اس بیان کے بعد کہ ’’حکومت کے پاس کوئی پیسے نہیں۔ ڈیم بنانا ہے تو عوام پیسے دیں۔‘‘
آزاد حلقوں کے مطابق دیا میر بھاشا ڈیم کی لاگت کا تخمینہ 18 سے 20 ارب ڈالر ہے جب کہ تعمیر کا دورانیہ تقریباً 14 سال ہے، لیکن بالفرض 14 ارب ڈالر کا حکومتی تخمینہ بھی لیں اور کھینچ تان کر یہ بھی فرض کرلیں کہ روزانہ 2 کروڑ روپے کا چندہ اکٹھا ہورہا ہے، تو بھی ہدف تک پہنچنے کے لیے 72 ہزاردن یا 199 برس درکار ہوں گے۔ یہ الگ بات ہے کہ 14 ارب ڈالر کا تخمینہ انتہائی کم ہے۔ کیوں کہ ڈیموں کے عالمی کمیشن کے مطابق اختتام تک پہنچتے پہنچتے لاگت تقریباً دوگنا ہوا کرتی ہے۔ اس صورت میں ڈیم کا چندہ چار سو سال میں اکٹھا ہوگا۔
میڈیا پر بڑے بڑے دانشور اور تجزیہ نگار ’’خیالی ڈیم‘‘ بنانے میں مصروف ہیں جب کہ پس پردہ بچی کھچی سبسڈیز کے خاتمے، بالواسطہ ٹیکسوں اور مہنگائی میں اضافے کی ایک خاموش مگر جارحانہ کارروائی جاری ہے۔
بجلی کی قیمتوں میں دو روپے فی یونٹ اضافہ کیا گیا ہے جس سے صارفین پر 150 ارب روپے کا اضافی بوجھ پڑا ہے۔ اسی طرح چھوٹے اور غریب صارفین کے لیے گیس کی قیمتوں میں 10 سے 143 فیصد تک اضافہ کیا گیا ہے، جس سے صارفین پر 94 ارب روپے کا بوجھ پڑے گا۔ کمرشل اور صنعتی صارفین کے لیے گیس کی قیمتوں میں 30 سے 57 فیصد اضافہ کیا گیا ہے، جس سے نہ صرف کھاد، سیمنٹ اور سی این جی کی قیمتوں میں تیز اضافہ ہوگا بلکہ بجلی بھی 12 فیصدمزیدمہنگی ہو جائے گی۔ بجلی اور گیس کی قیمتوں میں اضافے سے ہر چیز کی قیمت بڑھ رہی ہے۔ کھاد کی قیمتوں میں پہلے ہی 200 سے 800 روپے تک کا اضافہ ہوچکا ہے۔ ٹول ٹیکس 10 فیصد بڑھادیا گیا ہے۔ ایل پی جی فی کلو 70 روپے مہنگی کردی گئی ہے۔ شناختی کارڈ فیس میں بھی ایک ہزار روپے اضافے کی خبر ہے۔ دو سو اداروں کی نجکاری کا اعلان تو تحریک انصاف نے حکومت سنبھالنے سے پہلے ہی کر دیا تھا۔ یوٹیلیٹی سٹورز کا منصوبہ بھی بند کیا جا رہا ہے، جس سے نہ صرف غریب صارفین متاثر ہوں گے بلکہ ہزاروں افراد الگ سے بے روزگار ہوں گے۔ علاوہ ازیں محکمۂ صحت کے ہزاروں ڈیلی ویجز ملازمین کو فارغ کیا جا رہا ہے۔ ان تمام اقدامات سے سماج کی محروم ترین پرتوں کی زندگی برباد ہو گی۔ ڈھٹائی کی حد یہ ہے کہ ایک طرف ان حملوں کی منظوری خود عمران خان سرکاری اجلاسوں میں دے رہا ہے، جب کہ دوسری طرف فواد چوہدری جیسے پیشہ ور جھوٹوں سے تردیدیں کروائی جاری رہی ہیں کہ ’’کوئی اضافہ نہیں کیا گیا۔‘‘ پھر اگلے ہی دن دوبارہ خبر آتی ہے کہ اضافہ کیا جارہا ہے یہی کیفیت ڈیلی ویجز ملازمین کو نکالنے جیسے اقدامات کی ہے۔ کوئی ایسا دن نہیں گزرتا جب یہ حکومت کوئی ’’یوٹرن‘‘ نہ لیتی ہو۔
قارئین، معاشی بحران جتنا شدید ہے، اس کے پیشِ نظر 8 سے 12 ارب ڈالرکا قرضہ فوری طور پر درکار ہے۔ چین اور سعودی عرب سے کچھ قرضہ ملنے کی خبریں ہیں لیکن حالات یہی بتا رہے ہیں کہ انہیں آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑے گا۔ اس صورت میں یہ 1980ء کی دہائی کے بعد بارہواں بیل آؤٹ ہوگا (آخری اطلاع کے مطابق یو اے ای کی طرف سے بھی 3 ارب ڈالر سٹیٹ بنک میں جمع ہونے والے ہیں)۔ نیز تازہ اطلاعات کے مطابق آئی ایم ایف بھی شاید جنوری میں پاکستان کا دوبارہ دورہ کرے اور کچھ شرائط کے ساتھ اپنے قرضے کا اجرا کرے۔
18 ستمبر کو پیش کیے گئے فی بجٹ میں وفاقی ترقیاتی پروگرام کے بجٹ میں کٹوتیوں کا آغاز کرتے ہوئے 250 ارب روپے کی کمی کی گئی ہے جب کہ پانچ ہزار اشیا پر کسٹم ڈیوٹی اور 900 اشیا پر ریگولیٹری ڈیوٹی بڑھائی گئی ہے۔ منی بجٹ اس بات کا ثبوت بھی پیش کرتا ہے کہ تحریک انصاف آخر حکمران طبقے کے کن حصوں کی نمائندگی کرتی ہے۔ ’’فان فائلرز‘‘ کو گاڑیوں اور جائیداد کی خرید و فروخت کی اجازت دینے کا اقدام بنیادی طور پر کالے دھن والوں کے مفادات کے پیشِ نظر کیا گیا ہے۔ یوں تحریک انصاف یہاں کے حکمران طبقے میں شامل ہونے والے ان نو دولتیوں کی نمائندہ ہے جو کئی صورتوں میں پرانی سرمایہ داری سے بھی زیادہ دھنوان بن چکے ہیں اور جن کی سرمایہ کاری رئیل اسٹیٹ اور نجی تعلیم اور علاج جیسے شعبوں میں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دوسری تمام جماعتوں سے زیادہ ارب پتی اس وقت تحریک انصاف میں موجود ہیں۔ انتخابات اور پھر ہاؤس ٹریڈنگ میں جہانگیر ترین اور علیم خان جیسے لوگوں نے جس بڑے پیمانے پر دولت لگائی ہے، اس کے سامنے نواز لیگ کی مالی حیثیت بھی چھوٹی نظر آنے لگی ہے، یعنی ’’کرپشن مخالف سیاست‘‘ کرنے والی جماعت چل ہی کالے دھن پر رہی ہے۔ اسی لیے کالے دھن کے خلاف نواز حکومت کے کمزور اور ادھورے اقدامات بھی ختم کیے جا رہے ہیں۔
ان حالات میں 69 دنوں بعد نواز شریف اور مریم کی ضمانت پر رہائی کے عمل کے پیچھے جہاں کئی وجوہات کار فرما ہیں، وہاں ریاستی اداروں خصوصاً عدلیہ میں پڑنے والی دراڑوں، جس کا اظہار اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججوں کے بیانات سے ہوتا رہا ہے، کی غمازی بھی ہوتی ہے، لیکن ان چند ماہ میں نواز شریف اور مریم کو یہ اندازہ تو ہوگیا ہوگا کہ نواز لیگ کے موجودہ ڈھانچوں کے ذریعے وہ مزاحمت کی سیاست نہیں کر پائیں گے۔

……………………………………………………………………

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com پر ای میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔