انسان کے پاس جب طاقت ہو، تو اُس سے یقینی طور پر کچھ ایسے فیصلے، اقدامات اور حکم سرزد ہو جاتے ہیں کہ جو طاقت کی چکا چوند ختم ہوتے ہی اس کے گلے پڑ جاتے ہیں۔ یہاں دو باتیں نہایت اہم ہیں کہ اگر آپ نے گناہ کیا ہے اور پکڑ میں آ گئے ہیں، تو یقینی طور پر یہ پکڑ نفسیاتی حوالے سے آپ کو زندگی کی دوڑ میں دوبارہ لانے کے لیے نہایت اہم ہوتی ہے۔ دوسری، اگر آپ گناہگار ہیں اور پکڑ میں آ گئے ہیں، تو وقت کا پہیہ جیسے جیسے گھومتا جاتا ہے، آپ نہ صرف اپنی غلطیوں سے سبق سیکھتے ہیں بلکہ یہی بے جرم سزا آپ کی شخصیت میں حیران کن طور پر ایک مثبت تبدیلی لے کے آتی ہے اور آپ ایک مضبوط شخصیت کے طور پہ اُبھرتے ہیں۔ بے شک اس سے بہت سوں کو اختلاف بھی ہو گا لیکن حقیقتاً ان دونوں صورتوں کا جائزہ لیجیے، تو کیا ہمارے ارد گرد ایسے ہی حالات کا ہم منظر نہیں دیکھ رہے؟
نواز شریف کو پہلی دفعہ جب اڈیالہ جیل روانہ کیا گیا، تو مخالفین اپنے نشتر ان کو بطورِ مجرم سمجھ کے ان کی ذات کے بخیے ادھیڑنے کے لیے برسا رہے تھے، تو حواری ان کی قید و بند کی صعوبتوں کو یاد کر کے گریہ کر رہے تھے۔ اُس وقت بھی قلم کی نوک میں، کچھ اپنی رو میں لکھنے والے، لکھ گئے کہ یہ سزا بہرحال دونوں حوالوں سے نواز شریف کو تبدیل کرنے کا باعث بن سکتی ہے۔ ہم یہ تصور کیے بیٹھے ہیں کہ ایک سو تیس مرتبہ احتساب عدالت میں پیشی اور پھر دوسری مرتبہ نواز شریف کو جیل کا پروانہ تھما دینا صرف ایک فریق کی فتح اور ایک فریق کی شکست پہ مبنی ہے، لیکن اگر ہم حقیقتاً جائزہ لیں، تو یہ واقعہ در اصل ایک نظام کی فتح اور انا کے بت کی شکست ثابت ہو رہا ہے۔ آپ دیکھئے اس ملک کی روایت رہی ہے کہ یہاں انصاف بے اولاد تھا، لیکن نواز شریف، جو اس ملک کے وزیر اعظم رہ چکے ہیں، انہوں نے تاریخ کے برعکس نہ صرف وطن واپس آنے کو ترجیح دی بلکہ حالات کا سامنا بھی کیا۔ اور دوسری مرتبہ سزا پا کے بھی وہ اپنے لہجے میں ایک ٹھہراؤ رکھے ہوئے ہیں۔ ان کے زمانۂ ضمانت میں بھی ان کے لہجے میں نہ تو وہ ترشی دیکھنے میں آئی نہ جی ٹی روڈ والا گرج دار تکبر تھا۔ اس کو آپ مثبت پیرائے میں کیوں لینا گوارا نہیں کر رہے کہ ایک اتنا بڑا راہنما ملکی نظامِ عدل کے سامنے بذات خود پیش ہونے آیا اور الزامات کا سامنا بھی کر رہا ہے؟ اور نواز شریف جیسی قد آور سیاسی شخصیت اگر خود کو نظامِ عدل کے تابع کر رہی ہے، تو آپ اس کو دوسرا رخ کیوں دینا چاہ رہے ہیں؟ دوسری جانب نواز شریف کے لیے لمحۂ فکریہ بھی ہے اور مقامِ فرد شناسی بھی کہ کون اس کڑے وقت میں کھڑا رہا اور حقیقی ساتھی ہے،جب کہ کون موسمی پنچھی ثابت ہوا اور زبانی دعوؤں کا شہسوار نکلا۔ اسی کے ساتھ ضمنی حوالے سے نواز لیگ کے حواری اس پوری کارروائی کو اپنے قائد کے خلاف انتقامی کارروائی ثابت کرنے پہ کیوں تلے ہوئے ہیں؟ اُن کو تو بہرحال خوش ہونا چاہیے کہ جس طرح فلیگ شپ ریفرنس سے نواز شریف بری ہوئے، تو اللہ کرے کہ مستقبلِ قریب میں وہ وہ باقی الزامات سے بھی پیچھا چھڑائیں۔ اور بدقسمتی سے اگر الزامِ جرم ثابت بھی ہو، تو کم از کم وہ اپنے کیے کی سزا بھگتنے کے بعد ہمیشہ کے لیے بری الذمہ تو ہو جائیں گے۔ ہاں، یہ بہرحال ووٹر پہ ہے کہ جرم ثابت اگر ہو، تو سزا بھگتنے کے بعد وہ نواز شریف سے سوال کرنے کا حق بہرحال رکھتے ہیں اور اگر غلطی کا ازالہ کرنا چاہیں، تو عوام انہیں موقع دے سکتے ہیں اور اگر وہ ہٹ دھرمی سے ’’میں نا مانوں‘‘ کی رٹ پہ قائم و دائم رہیں، تو فیصلہ پھر بھی عوام کے ہاتھ میں ہے۔ اس سزا سے ابھی تک کیا پایا نواز شریف نے؟ آپ دیکھئے جی ٹی روڈ بیانیہ جو ملک کے لیے خطرناک تھا، وہ معدوم ہوا۔ یہ نواز شریف کی ذات میں بہت بڑی تبدیلی ہے اور عوام کے دل میں کسی نہ کسی وقت یہ نقطہ ان کے حق میں جائے گا۔ اس پورے قصے میں بیگم کلثوم نواز کی علالت اور پھر ان کا انتقال، حیران کن نہیں کہ نواز شریف نے اس پورے معاملے کو پوائنٹ اسکورنگ کے لیے استعمال نہیں کیا؟ کیا آپ کے نزدیک بطورِ انسان نواز شریف کا تبدیل ہوتا یہ رویہ مملکت کے مفاد میں نہیں؟
اس پورے کیس میں دوسرا مثبت پہلو تلاش کیجیے کہ ہمارے حال و مستقبل کے حکمران خیانت کرتے ہوئے ہزار بار شاید سوچنا شروع کر دیں کہ اس ملک کا نظامِ عدل اتنا طاقتور ہو رہا ہے کہ وہ کسی کو بھی کٹہرے میں لا کھڑا کر سکتا ہے۔ جب ایک سابق وزیر اعظم انصاف کی چھلنی سے گزر رہا ہے، تو باقی کون بچ پائے گا؟ لیکن ہم یہ پہلو بھی نہ صرف سوچنا نہیں چاہتے بلکہ اس سوچ کا رُخ کرنا بھی ہمارے لیے شجرِ ممنوعہ سا ہے۔
نواز شریف ایک مرتبہ پھر پسِ زنداں ہوئے۔ نقارۂ انصاف ایک مرتبہ پھر پوری آواز سے بجا ہے، لیکن ہم ان دونوں صورتوں میں مثبت تلاش کرنے کے بجائے منفی رجحانات کا نہ صرف راگ الاپ رہے ہیں بلکہ ان رجحانات کا جوش و خروش سے پرچار کر رہے ہیں۔ نواز شریف کی سزا و طلبی اس بات کی جہاں دلیل ہے کہ قانون و عدل کا ہاتھ اُن کے گریباں تک بھی پہنچ رہا ہے جنہوں نے خود ساختہ استثنا حاصل کر رکھا تھا، تو وہیں یہ تمام عمل اس بات کی بھی واضح دلیل ہے کہ اگر نواز شریف انصاف کی چھلنی سے گزر گئے اور اپنا وجود برقرار رکھا، تو ان کا نہ صرف سیاسی قد بڑھ جائے گا بلکہ یقینی طور پر اصلاحی حوالے سے ان کی ذات پہ بھی اس کا مثبت اثر پڑے گا۔
چھلنی وچوں چھن چھن جاوے
ستھرا تے داغی آسے پاسے
…………………………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com پر ای میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔