ریاست میں سیدو شریف کے مقام پر ایک مرکزی جیل تھی اور ہر تحصیل، قلعہ اور تھانہ میں بھی ایک جیل ہوتی تھی۔ جیلوں کے حالات بدترین ہوتے تھے۔ ملزمان کے ساتھ انتہائی برا سلوک ہوتا۔ خوراک کم مقدار اور کم معیار جب کہ غسل خانہ کی سہولت نہ ہونے کے برابر تھی۔ ابتدائی زمانے میں قیدیوں کے ساتھ ایک انتہائی غیر انسانی سلوک یہ بھی کیا جاتا کہ اُن کا ایک پاؤں کسی بڑی لکڑی میں سوراخ کرکے اُس میں بند کر دیا جاتا۔ زیادہ سخت مجرموں اور اسی طرح سیاسی مجرموں کے دونوں پاؤں میں بیڑیاں ڈالی جاتیں۔ اسے کُوَندہ کہا جاتا۔
ایک بار جیل معائنہ کے دوران میں نیک پی خیل شاہ ڈھیرئی کے ایک قیدی قاضی مرتضیٰ نے جیل کے برے حالات اور خراب خوراک کے بارے میں والی سے شکایت کی جرأت کی۔ والی نے اُسے بری طرح مارا پیٹا، لیکن بعد میں کسی حد تک ان شکایات کا اِزالہ کر دیا گیا۔ 1966ء میں ککڑیٔ کے علی حیدر نے جیل کی خوراک کے پست ترین معیار، غسل خانوں، ٹائلٹ اور صحت سے متعلق سہولتوں کی کمی کے بارے میں جیل سے خط لکھا۔ اس کے بعد حالات کو بہتر بنانے کے سلسلہ میں تھوڑی بہت کوشش کی گئی۔ تھانہ اور قلعہ جیلوں میں قید ملزموں کی خوراک کا انتظام اُن لوگوں کو کرنا پڑتا تھا جن کی شکایت پر انہیں قید کیا گیا تھا۔
مجرموں سے جیل کے باہر جسمانی مشقت کرائی جاتی تھی، لیکن مراعات یافتہ خاندانوں کے افراد سے صرف اسپتالوں یا سرکاری جگہوں کی صفائی ستھرائی کا کام لیا جاتا تھا، جب کہ عام مجرموں سے پتھر ڈھونے جیسا سخت کام لیا جاتا تھا، یا اُن سے پتھروں کی کان کنی کرائی جاتی۔ میاں گل جہان زیب نے سیدو شریف میں جیل کی ایک نئی عمارت بنوائی اور کچھ اصلاحات متعارف کرائے۔ یہ فرمان جاری کیا گیا کہ قیدی کو ایک ہفتہ سے زیادہ تھانہ میں نہیں رکھا جا سکتا تھا اور جسے ایک ہفتہ سے زیادہ قید کی سزا ہوجاتی اُسے مرکزی جیل منتقل کرنا لازمی تھا۔ نومبر 1964ء کے بعد سے قیدیوں کو "مجرائی دَ قید” (تخفیفِ قید) کے نام سے 40 روپے ماہانہ دیے جاتے تھے۔ (کتاب "ریاستِ سوات” از ڈاکٹر سلطانِ روم، مترجم احمد فواد، ناشر شعیب سنز پبلشرز، پہلی اشاعت، صفحہ 152 تا 153 سے انتخاب)