مہتاب محبوب کا جنم کراچی میں ہوا۔ اپنی ہم عصر مصنفاؤں میں انہوں نے بڑا نام کمایا ہے۔ انہوں نے بہ حیثیت کہانی کار، ناول نگار، سفرنامہ نگار، مضمون نگار، ڈرامہ نگار، کالم نگار اور شاعری میں اپنا مقام حاصل کیا ہے۔ انہوں نے لکھنے کی شروعات بچپن میں بچوں کے ادب سے اور کہانیوں کے ترجمے سے کی۔
وہ 1960ء سے باقاعدہ لکھتی آ رہی ہیں۔ ان کی کہانیوں کے مجموعوں میں وھامیءَ جو وَر، تو جنیں تات، مٹھی مراد، لہر لہر زندگی، 1985ء، پرہ کھاں پھیریں 1973ء، چاندی جوں تاروں 1984ء، پُلِ صراط (اردو) شامل ہیں۔
ان کا ناول خواب خوشبو آئیں چھوکری، اور پیار پناہوں چھارو شائع ہو چکے ہیں۔ ان کے سفرناموں میں سروی سروی سار، راہوں چنڈ ستارا 1981ء، اور ورھانگے جو ورجاؤ 1992ء شامل ہیں۔
اسی طرح مضامین کے مجموعے جھروکا اور اندر جنیں اَنج شامل ہیں۔ آپ نے ٹی وی کے لیے بھی کئی ڈرامے لکھے ہیں۔ جن میں بلیٹن، روئی ڈنورات (رات نے رودیا) لالن اور سین ڈین اہم ڈرامے ہیں۔ مہتاب محبوب کو اپنی فنی لیاقتوں کے بدلے کئی ایوارڈ بھی مل چکے ہیں جن میں چاندی جوں تاروں کو پاکستان رائٹرز گلڈ کی جانب سے انعام ملا ہے۔
مہتاب محبوب کی تحریروں میں سندھی ماحول اور معاشرے کے ہر طبقے کی نمائندگی ملتی ہے، کیوں کہ ان کی کہانیاں منفرد اور حقیقت پر مبنی ہوتی ہیں۔ ان کے کردار سادہ اور زبان عام فہم ہوتی ہے، ان کی کہانیاں گھریلو کہانیاں ہیں جن کے پڑھنے سے یوں لگتا ہے جیسے قاری کے اپنے گھر کی کہانی ہو۔ اس سلسلے میں ان کی کہانیاں "بھک جاچک، ڈگھو پیر پیراں، مریم جوبت، میک ئی تمنا، سریت، محشر موچارو، دلبر کان جوانی” نمائندہ کہانیاں ہیں۔ مہتاب محبوب اپنی تحریروں میں عام عورت کی بیداری وہم پرستی اور دقیانوسی روایتوں کے خلاف مسلسل برسرپیکار ہے۔
مہتاب محبوب کے افسانوں کے سلسلے میں تنویر جونیجو لکھتی ہیں: "ماہتاب محبوب کے افسانے حقیقت نگاری کے ترجمان ہیں ان کی کہانیوں میں حقیقت نگاری کے باعث اکثر کہانیوں پر سماجی ماحول کا رنگ کسی نہ کسی حد تک خود بخود چڑھ گیا ہے۔ دراصل کہانیوں میں ان کا مقامی رنگ، مقامی لہجہ اور ماحول ہی ان کے تخلیقی حسن کو ظاہر کرتا ہے۔ ان کے کردار حقیقی، ان کا ماحول سچا اور ان کی بیان کی ہوئی صورت حال میں کسی نہ کسی واقعہ کا عکس ہوتا ہے۔ ان کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ وہ آج تک مسلسل لکھ رہی ہیں۔ ان کی تحریر میں طنز کا تیکھا پن اپنے عروج پر ہوتا ہے۔ جب وہ اپنے معاشرے کے فضول رسم و رواج کے خلاف آواز اٹھاتی ہے۔”
مہتاب محبوب کے افسانوں کے متعلق ڈاکٹر شمس الدین عرسانی یوں رقمطراز ہے: "عام طور پر مختصر کہانیوں میں مرکزی اہمیت واقعے کی ہوتی ہے جس میں ضمنی واقعے اہم واقعے کو ابھارنے میں مدد دیتے ہیں لیکن ماہتاب محبوب کی کہانی کاری میں بالکل منفرد، فنی اسٹائل ہے۔ کوئی بھی بنیادی اہمیت کا ایک واقعہ ان میں نہیں ہوتا۔ اس کے علاوہ اس میں تجویز کیا پلاٹ بھی نہیں ہوتا۔ البتہ کرداروں کی گفتگو اور چال چلن سے پلاٹ کے نشان ظاہر ہوتے ہیں۔ ان کی کہانیوں کی تکنیک ہی مکالماتی ہے۔ ماحول کی عکاسی صحیح موقع کی تصویر کشی، گھریلو زبان میں اتارا ہوا اسلوب نہایت ہی پُرکشش ہے۔ عورتوں کی نفسیات کی جانکاری، نوک جھونک اور طنز و مزاح، اصطلاحی اور نمکین گفتگو ان کی کہانیوں کی جان ہے۔”
ڈاکٹر غفور میمن، ماہتاب محبوب کے افسانوں کا احاطہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں: "ماہتاب محبوب کی کہانیوں میں بدلتے ہوئے معاشرے میں زندگی کے طور طریقے اور اسی زوال پذیر سماجی زندگی میں اور رسم و رواج کے شکار انسانوں کے مسائل موجود ہیں۔ ماہتاب محبوب اکثر گھریلو زندگی میں غیرپسندیدہ واقعات اور ان میں دکھ اور سکھ کے پیدا ہونے والے جذبات زیرِ موضوع لاتی ہیں ان کی کہانیوں میں زوال پذیر سماج سے نفرت اور نئے تعمیر ہونے والے سماج کی جھلک موجود ہے۔ ان کا مجموعی فکر روشن خیالی کی نمائندگی کرتا ہے۔”

………………………………………………………

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com پر ای میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔