تقریباً ساری دنیا میں اس وقت تین بڑی نسلیں پائی جاتی ہیں، زرد، سفید اور سیاہ۔
زرد نسل کا مشاہدہ کرنے سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ سب سے پہلے یہی نسل کے ’’درجے‘‘ پر پہنچی ہے۔ کیوں کہ ان کی جلد نہایت پتلی، بال چھدرے، چہرے سپاٹ اور سیدھے ہوتے ہیں۔ جلد کا کھردرا پن اور چہرے کا لمبوترا پن ختم ہوچکا ہے۔ چہرے اور دوسرے حصوں کے بال برائے نام اور نہایت چھدرے ہوتے ہیں۔ فطری طور پر اس نسل کا دماغ بھی زیادہ ترقی یافتہ ہے۔ خیالات میں، معاشرت میں اور طرزِ زندگی میں لطافت اور نزاکت کا رجحان زیادہ ہوتا ہے۔ یہ لوگ جو کھیل کھیلتے ہیں ان میں جسم سے زیادہ ذہن کا استعمال ہوتا ہے۔ تعمیرات میں، لباسوں میں، برتنوں میں اور اٹھنے بیٹھنے میں بھی زیادہ حسن اور لطافت ہوتی ہے۔
اس کے بعد سفید نسل کا ارتقا ہوا ہے اور اس نسل میں صاف طور پر یہ بات جھلکتی ہے کہ ذہنی لحاظ سے یہ زرد نسل سے تھوڑے کم اور سیاہ نسل سے تھوڑے زیادہ ہوتے ہیں۔
سیاہ نسل سب سے کم عمر نسل ہے۔ چناں چہ ان کے چہروں میں ابھی تک حیوانی لمبوترا پن موجود ہوتا ہے۔ بال نہایت گنجان اور کھردرے ہوتے ہیں۔ کھیلوں میں جسمانی زور اور طاقت والے کھیل زیادہ پسند کرتے ہیں اور ذہنی لحاظ سے کافی کمتر ہیں۔
یہاں یہ بات یاد رکھنے کے قابل ہے کہ رنگ اور قدو قامت کا تعلق نسل سے نہیں بلکہ خطے کے موسمی حالات سے ہوتا ہے۔ سرد پہاڑی علاقوں میں کم دھوپ اور گرمی کے باعث رنگ زیادہ صاف ہوتے ہیں جب کہ ہوا کا دباؤ کم ہونے کی وجہ سے قد و قامت میں زیادہ ہوتے ہیں۔ نیچے علاقوں میں ہوا کا دباؤ زیادہ ہوتا ہے، اس لیے قد و قامت زیادہ نہیں ہوتی۔ رنگت خطِ استوا سے زیادہ قریب رہنے والوں کی زیادہ سیاہ ہوتی ہے جب کہ قطبین کے قریب رنگ صاف اور سفید ہوتے ہیں۔ (سعد اللہ جان برقؔ کی کتاب "پشتون اور نسلیاتِ ہندو کُش” صفحہ نمبر 36 سے انتخاب)