عبدالودود کو اس بات کا بخوبی علم تھا کہ جب تک ریاست کا ہر علاقہ مرکز کے دسترس میں نہ ہومؤثر طریقہ سے حکومت نہیں چلائی جاسکتی۔ اس لئے اُس نے سارے اہم قصبات اور نئے مفتوحہ والحاق شدہ علاقوں تک سڑکوں کا ایک جال بچھادیا۔ سڑکوں کی تعمیر کا یہ کام بیگار اور ریاستی ملیشا کے ذریعہ کیا جاتا تھا۔ تمام قلعے اور انتظامی دفاتر ٹیلی فون کے ذریعے ایک دوسرے سے مربوط تھے جس کی وجہ سے ریاستی افواج کو فی الفور حرکت میں لایا جاسکتا تھا، حسب ضرورت اور بروقت کمک کی ترسیل ہوسکتی تھی اور تعزیری مہموں کے لیے فوج باآسانی بھیجی جاسکتی تھی۔ مرکز اور دور دراز علاقوں کا آپس میں رابطہ رہتا تھا۔
جیمز ڈبلیو سپین کا مندرجہ ذیل اقتباس اس بات کی تصدیق کرتا ہے کہ قلعے اور ٹیلی فون استحکام کے حصول کے کارگر ذرائع تھے۔ کسی قلعہ میں تعینات ایک معمر سب انسپکٹر کے بارے میں اپنے بیان میں وہ کہتے ہیں: "عمر رسیدہ سب انسپکٹر نے دیوار پر لٹکے ہوئے ایک قدیم ٹیلی فون کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا، "اِن کے ذریعہ ہمارے میاں گل نے اس ریاست کو فتح کیا۔” اُس نے اعلان کیا کہ اُس نے اس قسم کے قلعے ہر جگہ تعمیر کیے۔ ان میں ٹیلی فون رکھوائے۔ جب بھی پہاڑی بھکاری گڑبڑ پر آمادہ ہوتے ہیں، ہم اُسے فون پر بتا دیتے ہیں۔ وہ یا تو اور آدمی بھیج دیتا ہے، یا خود ہی آ جاتا ہے یا ہم اُس کے بیٹے والی صاحب کو جو کہ اب ہمارا بادشاہ ہے، سب کچھ بتا دیتے ہیں۔” (کتاب ریاستِ سوات از ڈاکٹر سلطانِ روم، مترجم احمد فواد، ناشر شعیب سنز پبلشرز، پہلی اشاعت، صفحہ 101 تا 102 سے انتخاب)