حکمرانِ سوات میاں گل عبدالودود اور وزیر برادران

حضرت علی اور احمد علی میاں گل عبدالودود کے دو بہت ہی وفادار ملازم تھے بلکہ اگر انہیں ساتھی کہا جائے، تو بے جا نہ ہوگا۔ عام طور پر انہیں "وزیران” یا "وزیر برادران” کہا جاتا ہے۔ حضرت علی نے مختلف عہدوں پر کام کیا، جیسے وزیر، وزیرِ اعظم وغیرہ۔ اسی طرح احمد علی نے کئی طرح کی اہم ذمہ داریاں نبھائیں، جیسے سپہ سالار اور وزیر وغیرہ۔ دونوں نے ہر حال میں ان کا ساتھ دیا۔ یہ بات سمجھنی خاصی مشکل ہے کہ عبدالودود نے اپنی سوانح عمری میں بہت سے ایسے افراد کی خدمات و امداد کا بہ مشکل ہی اعتراف کیا ہے، جنہوں نے ریاست کی تشکیل و قیام اور استحکام و توسیع میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا تھا۔
یہ بات ماننے کی ہے کہ ساری کامیابی و کامرانی کا حتمی طور پر سہرا عبدالودود ہی کے سر سجتا ہے، لیکن کچھ افراد نے مختلف مشکل مراحل میں ان کی بہت مدد کی۔ وزیر برادران انہی لوگوں میں سے تھے جن کی سمجھ بوجھ، تعاون اور خدمات کے بغیر وہ کبھی بھی کامیاب نہیں ہوسکتے تھے۔ چاہے باچا صاحب مانتے ہوں یا نہ اپنی بہت سی کامیابیوں کے لیے وہ وزیر برادران اور دیگر کئی لوگوں کے مرہون منت رہیں گے۔ 22 مئی 1923ء کو سیدو کے مقام پر منعقدہ معززین کے اجتماع کے موقع پر، اپنی اُس تقریر میں جو ان کی طرف سے وزیر نے سنائی، وزیر حضرت علی اور سپہ سالار احمد علی کی اعلیٰ خدمات کا اعتراف کیا گیا اور اس کے لیے ان کی خوب ستائش کی گئی۔ اسی طرح یہ بات بھی بیان ہوئی ہے کہ بونیر میں وزیر کی خدمات و کارناموں کے اعتراف و ستائش کے طور پر سیدو پہنچنے پر اُسے، پندرہ توپوں کی سلامی دی جائے گی۔ اُس کے بھائی سپہ سالار کو چکیسر اور کانڑا میں کامیابیوں پر دو رائفلیں، ایک مائیکرو اسکوپ (ٹیلی سکوپ؟) اور ایک کتا انعام میں دیا گیا۔
وزیر برادران کو ریاست کے استحکام اور توسیع کے کام میں اتنی اہمیت حاصل تھی کہ عبدالودود نے حضرت علی کی بیوی کی وفات کے بعد اپنی ایک بیٹی سُچہ بی بی کی اُس سے خفیہ طور پر منگنی کی۔ اس بات پر بہت اضطراب پھیل گیا، اس لیے کہ یہ کہا گیا کہ وزیر کی مرحومہ بیوی اس لڑکی کی رضاعی ماں ہے جس کی وجہ سے یہ رشتہ ناجائز ہے۔ لڑکی کی عمر اس منگنی کے وقت صرف نو سال تھی۔  (کتاب ریاستِ سوات از ڈاکٹر سلطانِ روم، مترجم احمد فواد، ناشر شعیب سنز پبلشرز، پہلی اشاعت، صفحہ 96 تا 97 سے انتخاب)