31 دسمبر 1990ء تک ضلع بونیر ایک سب ڈویژن کی حیثیت سے ضلع سوات کا حصہ تھا۔ اس سے قبل یہ ریاستِ سوات میں بھی شامل تھا، لیکن یکم جنوری 1991ء کو ضلع سوات سے بونیر کا علاقہ الگ کرکے اُسے علاحدہ ضلع کی حیثیت دے دی گئی۔ ڈگر ضلع بونیر کا صدر مقام ہے جو سوات کے مرکزی شہر منگورہ سے 64 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔
بری کوٹ کے مقام پر سوات کی جرنیلی سڑک سے جنوباً ایک سڑک براستہ کڑاکڑ پاس بونیر تک چلی گئی ہے۔ راستے میں نجی گرام کے مشہور آثارِ قدیمہ ہیں جن تک دائیں طرف ایک دوسری ذیلی سڑک چلی گئی ہے۔ جب کہ بونیر کی طرف جاتے ہوئے راستے میں ایک نہایت حسین مقام "املوک درہ” آتا ہے، جو بلند وبالا پہاڑوں سے گھرا ہوا نہایت دِل کش مقام ہے۔ ناوگئی نامی مقام سے ہوتے ہوئے درۂ کڑاکڑ میں داخل ہوا جاتا ہے جو اگرچہ زیادہ تر چڑھائی اور پھر اُترائی پر مشتمل ہے لیکن پورا راستہ گھنے جنگلات سے پُر بہت خوب صورت ہے۔ جُوَڑ (Jowar) کے مقام پر سڑک دو حصوں میں منقسم ہوجاتی ہے۔ ایک سڑک براستہ تور ورسک ڈگر تک چلی گئی ہے جب کہ بائیں طرف سڑک حضرت پیر بابا کے مزار (پاچا کلے) تک جاتی ہے۔ یہ سڑک بھی دس میل کے فاصلے پر ڈگر تک چلی گئی ہے۔ ضلع بونیر کا صدر مقام ہونے کی وجہ سے ڈگر میں ضلعی دفاتر، ٹیلی فون ایکسچینج، مرکزی ڈاک خانہ، ہسپتال اور ضلعی انتظامیہ کی رہائش گاہیں واقع ہیں۔ یہ مقام نہایت حسین اور دل کش ہے۔ یہاں سے چار کلومیٹر کے فاصلے پر واقع "سواڑی” ایک اہم جگہ ہے جو ایک بڑا تجارتی مرکز ہے۔ یہاں ایک خوب صورت کالج بھی ہے۔ سواڑی سے ایک سڑک مشہور تاریخی مقام "درہ امبیلہ” تک چلی گئی ہے۔ جہاں سے براستہ سدم، شہباز گڑھی جایا جا سکتا ہے اور پھر وہاں سے تربیلہ ڈیم، ضلع صوابی اور ضلع مردان میں داخل ہوا جا سکتا ہے۔ سواڑی سے دوسری سڑک واپس تور ورسک، انغاپور اور ایلئی سے ہوتی ہوئی بری کوٹ (سوات) سے مل جاتی ہے۔

حضرت سید علی ترمذی عرف پیر باباؒ کے روضے کے ساتھ قائم عالیشان مسجد۔ (Photo: pk.geoview.info)

بونیر کی پوری وادی بلند پہاڑوں سے گھری ہوئی ہے۔ یہ وادی کہیں تنگ اور کہیں بہت کشادہ ہے۔ زیادہ تر زمین بارانی ہے، تاہم کہیں کہیں پہاڑی نالے اور ایک ندی اس کی زمین کو سیراب کرتی ہے۔ یہاں کے پہاڑوں میں قیمتی معدنیات بھی پائے جاتے ہیں۔ یہاں سفید پتھر اور سنگِ مرمر کے وسیع ذخائر موجود ہیں اور اس کے کارخانے یہاں قدم قدم پر قائم ہیں جہاں سے سنگِ مرمر پورے ملک میں بھیجا جاتا ہے۔
وادئی بونیر کے مقامات ملکا اور امبیلہ تاریخی شہرت رکھتے ہیں۔ یہ سید احمد شہید بریلویؒ کے مجاہدوں کا مرکز تھا اور یہیں سے اخوند صاحبِ سوات نے 1863ء میں جہاد کیا تھا اور اس علاقہ میں 1897ء میں یہاں کے قبائل نے انگریزوں کے خلاف علمِ آزادی بلند کیا تھا۔ پاچا کلے کے مقام پر مشہور بزرگ اور روحانی شخصیت حضرت سید علی ترمذی عرف "پیرباباؒ” کا مزار ہے جہاں دور دراز سے زائرین لاکھوں کی تعداد میں آتے ہیں۔
وادئی سوات اور بونیر کے درمیان ایلم پہاڑ کا طویل سلسلہ حائل ہے۔ کڑاکڑ ٹاپ سے بونیر کے میدانوں اور برف پوش چوٹیوں کا نظارہ بہت حسین اور دل فریب ہے۔ سردی کے موسم میں وادئی بونیر کے بلند پہاڑوں سمیت کڑاکڑ پاس پر بھی بہت برف پڑتی ہے۔
بونیر کے خوب صورت مقامات میں ڈگر، ایلئی، انغاپور اور قادر نگر شامل ہیں۔ قادر نگر کی خوب صورت اور حسین وادی پاچا کلے سے قریباً 8 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔جہاں مشہور صوفی اور روحانی شخصیت عبید اللہ درانی باباؒ محوِ استراحت ہیں۔ جن کے مزار (عُرس) پر ہر سال ہزاروں زائرین حاضر ہوتے ہیں۔ (فضل ربی راہیؔ کی کتاب "سوات سیاحوں کی جنت”)