پشتو موسیقی کے شہنشاہِ غزل خیال محمد، آفریدی قبیلہ ملک دین خیل کی ذیلی شاخ ’’جنڈہ خیل‘‘ میں 22 ستمبر 1946ء کو خیبر کے دور افتادہ علاقہ چورہ میں سپن گل (یا سپن داد) کے گھر پیدا ہوئے۔ خیال ایسے گھرانے میں پیدا ہوئے جو موسیقی سے وابستگی رکھتا تھا۔ والد ہارمونیم اور ڈھول کے اچھے اُستاد کے طور پر علاقے میں جانے جاتے تھے اور ماموں رحمان گل بھی موسیقی سے کافی رغبت رکھتے تھے۔ اس حوالہ سے ریڈیو پاکستان کے سابق سٹیشن ڈائریکٹر عمر ناصر کا کہنا ہے کہ 1960ء میں جب وہ پروڈیوسر کی حیثیت سے پشاور مرکز میں کام کر رہے تھے، تو ایک دن پشتو موسیقی کے اُستاد رفیق شنواری کے ساتھ ایک بچہ آیا، جس کی عمر تقریباً سات یا آٹھ سال تھی۔ ریڈیو سٹاف کے ساتھ اُس کی ملاقات کرائی گئی۔ رفیق شنواری نے سب کو بتایا کہ یہ بچہ آج ’’میوزک آڈیشن‘‘ دینے آیا تھا اور کامیاب ہوا۔ یہ اُس زمانے کی بات ہے کہ جب ریڈیو کا دفتر موجودہ ہائی کورٹ کے پچھلے حصے میں قائم ایک عمارت میں تھا۔ اس وقت پشتو موسیقی کے پروڈیوسر رشید علی خان دہقان تھے جنہوں نے خیال کا پہلا گانا ’’بیا می د نوی زوانئی ھغہ دوارن دے‘‘ ریکاڈ کیا، لیکن اُس وقت خیال کی عمر کم اور آواز انتہائی باریک تھی۔ چند ہی سالوں بعد خیال کی آواز میں پختگی پیدا ہوئی اور باقاعدہ طور پر ریڈیو پاکستان پشاور سے انہوں نے ایک فنکار کے طور پر کام شروع کیا۔
اُستاد خیال محمد کے ساتھ میری ملاقات ریڈیو پاکستان پشاور کی سالگرہ کے موقع پر ہوئی۔ تقریب کے مہمانِ خصوصی کی حیثیت سے اُنہوں نے شرکت کی تھی۔ اس وقت آپ خود چل نہیں سکتے تھے اور وہیل چیئر میں اُن کے بیٹے وصال خیال کے سہارے تقریب میں شرکت کے لیے آئے ہوئے تھے۔ طبیعت اور اُس دن کی تقریب کے حوالے سے میں نے پوچھا، تو اُن کا جواب تھا کہ آج وہ اس بات پر بہت خوش ہیں کہ اُس ادارے میں مہمانِ خصوصی کے طور پر آئے ہیں، جس کی بدولت اُن کو نہ صرف ملکی بلکہ بین الاقوامی سطح پر لوگ جانتے ہیں۔
اپنی موسیقی کے آغاز کے بارے میں اُستاد خیال محمد نے کہا کہ ریڈیو میں گانا ریکاڈ کرنا میرے لیے ایک خواب تھا۔ ’’گھر میں ایک والدصاحب کا پرانا ریڈیو سیٹ ہوتا تھا، جب اُس پر ہم موسیقی سنتے، تو دل میں یہ آرزو پیدا ہوتی کہ اے کاش، ہماری آواز میں بھی کوئی گانا ریڈیو سے نشر ہو جائے۔ گھر میں تو ویسے بھی موسیقی کا ماحول تھا۔ میرے والد اور مامو رحمان گل جو کہ ہدایت اللہ کے اُستا د تھے، مستقل موسیقی سے جڑے ہوئے لوگ تھے۔ یہ موسیقی کا وہ دور تھا جس میں کلاسیکل گائیگی کم اور فوکلور زیادہ تھی۔ میرا ماموں ٹپہ، چاربیتہ، نیمکے اور بدلے (یہ تمام پشتو شاعری کی اصناف ہیں جو کسی اور زبان کے ادب میں نہیں ملتیں) گاتے۔ چو ں کہ ہمارا آبائی علاقہ تیراہ تھا، وہاں کے مقامی لوگ فوکلور بہت پسند کرتے تھے۔ اس وقت میں چھوٹا تھا، لیکن تھوڑا بہت یاد ہے کہ تقسیمِ ہند سے پہلے ہمارے بزرگ گائیگی کے لیے دہلی اور دوسرے شہروں میں جاتے، اور وہاں سے ایک خاص قسم کی ٹوپی تحفے میں لایا کرتے۔ جہاں تک ریڈیو پاکستان آنے کا سوال ہے، تو میں اپنے بڑے بھائی سیف الملوک کے ساتھ گیا تھا، جو خود وہاں پر گانا ریکاڈ کرنے جایا کرتے تھے۔ ہم وہاں پر سٹوڈیو گئے اور دیکھا کہ موسیقی کے بہت بڑے آلات اور ریکاڈنگ کی اچھی سہولیات موجود تھیں۔ میں ذہنی دباؤ کا شکار تھا کہ موسیقی کے اتنے بڑے اُستادوں کے سامنے کیسے گانا گاؤں گا، لیکن میوزک پروڈیوسر رشید علی دہقان صاحب جو شمالی وزیرستان کے داوڑ قبیلے سے تھے، نے میرا پہلا گانا ’’بیا می د نوی زوانئی ھغہ دوارن دے‘‘ ریکاڈ کر لیا۔
خیال محمد کو اللہ نے ایسی آواز بخشی ہے کہ پشتو موسیقی میں اُس کی کوئی نظیر نہیں ملتی۔ آپ بذاتِ خود ملکۂ ترنم نور جہاں اور لتا منگیشکر سے متاثر ہیں۔ کہتے ہیں: ’’جب بھی مَیں ان دونوں کی آوازیں سنتا، تو اس بات پر غور ضرور کرتا کہ یہ کتنی سُریلی آوازیں ہیں اور ان آوازوں کی وجہ سے دونوں نے کتنا بڑا نام کمایا ہے!‘‘
1960ء سے پشتو موسیقی کا ایک نیا دور شروع ہوا۔ اس دور میں رفیق شنواری اور ماہ جبیں قزلباش جیسے لوگوں نے موسیقی میں اپنا حصہ ڈالا۔ دوسری طرف خیال نے اس ضمن میں پشتوشاعری کی تمام اصناف میں اپنی آواز کا جادو جگایا لیکن غزل گائیگی کے ساتھ وہ بھرپور انصاف کرگیا، جس کی وجہ سے اُن کوشہنشاہِ غزل کا خطاب ملا۔ ریڈیو پاکستان کے ریٹائر پروڈیوسر اور شاعر ارباب عبدالودود نے خیال محمد کے بارے میں بتایا کہ جہاں پر پشتو غزل کی بات ہوگی، وہاں پر خیال کا نام ضرور آئے گا۔ ’’شروع میں خیال سے ریڈیو میں فوکلور ریکاڈ کروایا گیا، لیکن وقت کے ساتھ جب ان کی آواز میں دم پیدا ہوا، تو دہقان اور مَیں نے خیال سے غزلیں ریکاڈ کروائیں، جن میں بابائے غزل امیر حمزہ خان شنواری اور کچھ میرا بھی کلام شامل تھا۔ وہ سب نہ صر ف اپنے وقت میں بلکہ آج تک پشتوموسیقی میں جادوسے کم نہیں۔‘‘
اُستاد رفیق شنواری کی موسیقی میں ارباب عبدلودود کا ایک کلام جو خیال نے گایا ’’اوس دی یادونہ افسانے خکاری‘‘ اب بھی پشتو موسیقی کا ایک اہم باب سمجھا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ خیال نے صوفی شاعر رحمان بابا، خوشحال خان خٹک، امیر حمزہ خان شنواری، شمس الزمان شمس، خاطر آفریدی، امیر غلام محمد صادق، ڈاکٹر محمد اعظم اعظم، ساحر آفریدی اور فدا مطہرکا کلام گا کر اَمر کیا۔ خیا ل نے پشتو فلموں کے لیے بھی بے شمار گانے ریکاڈ کرائے۔ اُس زمانے میں فلم کی کامیابی کا انحصار خیال کی آواز پر ہوتا تھا۔ مشتے نمونہ از خروارے کے مصداق 1971ء میں بننے والی پشتو فلم ’’درۂ خیبر‘‘ کے لیے خیال محمد نے پہلا گانا ’’مونگ یو د خیبر زلمی‘‘ ریکاڈ کروایا۔ یہ کلام یونس قیاس نے لکھا تھا جو تقریباً ًتمام پشتونوں کو یاد ہے۔ دیدن، خانہ بدوش، ارمان، دہقان، سپوگمئی، بازاور شہباز، انصاف، میرنے رور، اُوربل، احسان، د ٹیکسی ڈرائیور، جرم او سزا اور ضدی جیسی فلموں کے لیے اُنہوں نے گانے ریکارڈ کرائے تھے۔ اس دور کو پشتو فلم انڈسٹری کا معیاری دور سمجھا جاتا ہے۔
بحیثیت میوزک پروڈیوسر اور پشتو موسیقی پر کتاب کے مصنف لائق زادہ لائق کا کہنا ہے کہ خیال کا مقام پشتو موسیقی میں بہت اعلا ہے۔ بہت کم لوگ اس مقام تک پہنچتے ہیں۔ لائق زادہ نے مزید بتایا کہ خیال کی زندگی پر روحانی اثر زیادہ دکھائی دیتا ہے، جس کی بنیادی وجہ اُن کے روحانی پیر ستار شاہ باچا کے دربار میں ہونے والی قوالی اور وہاں کا مذہبی ماحول تھا۔’’باچا جی کے دربار میں قوالی کی تقریب ہوا کرتی تھی۔ پشتو کے دوسرے فنکاروں کے ساتھ خیال کا بڑا بھائی سیف الملوک باقاعدگی سے اس میں شرکت کرتا تھا۔ وہ بعد میں خیال کو بھی ساتھ لے جاتا۔ اس سلسلہ نے آگے خیال کو شہنشاہِ غزل کے مقام تک پہنچایا۔ انہوں نے پچاس سال سے زیادہ کا عرصہ موسیقی کی خدمت میں گزارا۔ کئی سالوں کی بیماری کی وجہ سے خیال انتہائی مشکل زندگی گزار رہے ہیں۔ اس کے باوجود ان کے چاہنے والوں میں کمی نہیں آئی۔‘‘
خیال محمد نے پشتو کے دیگر نامور گلوکاروں کے ساتھ گانے گائے ہیں جن میں گلنار بیگم، کشور سلطان، شکیلہ ناز اور ماہ جبیں قزلباش شامل ہیں۔ 1980ء میں صدارتی ایوارڈ سے انہیں نوازا گیا۔ صاحبزادوں میں انور خیال، وصال خیال اور شہزاد خیال نے والد کے فن کو زندہ رکھا ہوا ہے۔
خیال کے بارے میں اُستاد احمد گل جو کہ پشتو کے ایک مشہور فنکار ہیں، کا کہنا ہے کہ ’’پشتو موسیقی میں دوسرا خیال کبھی پیدا نہیں ہوگا۔‘‘
خیال محمد کی پشتو موسیقی کے لیے خدمات کے اعتراف میں 2016ء میں پاکستان، افغانستان، خلیجی ممالک اور یورپ میں تقریبات کا اہتمام کیا گیا۔ پشاور میں قائم افغان قونصلیٹ میں ایک تقریب کا اہتمام کیا گیا جس میں افغانستان کے صدر ڈاکٹر اشرف غنی کی طرف سے صدارتی ایوارڈ ’’میر بچہ خان میڈل‘‘ سے نوازا گیا۔
قارئین، پشتو ادب کے ناقدین کے مطابق پشاور کے روحانی پیشوا مرحوم ستار شاہ باچا عرف باچا جان کے پشتو زبان پر کافی احسانات ہیں، جس میں امیر حمزہ خان کو اُردو کی بجائے پشتو لکھنے کی طرف راغب کرنا، رفیق شنواری کو موسیقی کا اُستاد بنانا اور شہنشاہِ غزل خیال محمد کو سامنے لانا گویا باچا جان کے کار ہائے نمایاں ہیں۔
……………………………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com پر ای میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔