جواہر پارے

ایک روز چودھری محمد حسین اور راجہ حسن اختر شہر میں زکوٰۃ کی رقم مستحقین میں تقسیم کرکے واپس آئے۔ شہر کے بعض زکوٰۃ دہندگان اپنی رقم علامہ اقبال (مرحوم) کے سپرد کردیتے تھے، تاکہ وہ یہ زکوٰۃ مناسب اور مستحق افراد کو دیں۔ مذکورہ افراد نے علامہ (مرحوم) کو بتایا کہ وہ محلہ پیرگیلانیاں کی کسی بڑھیا کو زکوٰۃ کی رقم دینے گئے۔ ان لوگوں نے کسی سے سنا تھا کہ بڑھیا اس دنیا میں تنہا ہے اور نماز روزے کی پابندی سے زندگی بسر کرتی ہے۔ وہ لوگ بڑھیا کے گھر پہنچے، تو وہ ایک چارپائی پر بخار کی وجہ سے تقریباً بے ہوش پڑی تھی۔ اُسے بیدار کیا گیا اور کچھ رقم اسے دی جانے لگی۔ یکایک وہ ایک جذبے کے ساتھ اُٹھ بیٹھی اور کانپتے ہوئے ہاتھ اپنے کان کی بالیوں پر رکھے اور کہا کہ ’’نہیں بیٹا! ابھی تو میرے پاس یہ ہیں، جب تک یہ موجود ہیں، مَیں زکوٰۃ نہیں لوں گی۔ کسی اور مستحق کو جا کر دو۔‘‘ یہ کہہ کر اس نے رقم لوٹا دی اور پھر لیٹ کر سو گئی۔ ان الفاظ کے سنتے ہی علامہ صاحب پر کیفیت طاری ہوگئی اور پھر آنسوؤں کی لڑی اور سسکیاں جاری تھیں۔ چوہدری اور راجہ صاحب کی بھی حالت غیر ہوگئی۔ کچھ دیر بعد ڈاکٹر صاحب فرمانے لگے۔ ابھی یہ اُمت مر نہیں سکتی کہ اس میں ایسے لوگ باقی ہیں۔
قارئینِ کرام! حضرت شاہ عبدالعزیز دہلوی ؒ فرماتے ہیں کہ میں جس زمانے میں دہلی کہنہ میں رہتا تھا کوچۂ انبیا میں ایک سید کے گھر ایک پوربی باندی رہتی تھی جو بالکل جاہلہ تھی اور نماز کی بھی پابند نہ تھی۔ چوں کہ وہ عمر رسیدہ ہوگئی تھی اور گھر کے تمام صاحب زادوں پر اپنا حق رکھتی تھی، اس لیے وہ لوگ اس کی بڑی خدمت اور دیکھ بھال کرتے تھے۔ جب اس کا آخری وقت ہوا یعنی حالتِ نزع میں تھی، تو ایک آواز پوربی لہجے میں بلند کرتی تھی جس کا مطلب و مفہوم کسی کی سمجھ میں نہیں آتا تھا۔ حکما و صلحا کو بلایا گیا، لیکن اس کا یہ لہجہ نہ سمجھ سکے۔ شاہ عبدالعزیز صاحب فرماتے ہیں کہ آخر میرے چچا شاہ اہل اللہ کو بلایا گیا۔ وہ تشریف لے گئے انہوں نے معلوم کرلیا کہ اس کی زبان سے ’’لا تخافی ولا تحزنی‘‘ (اے عورت! مت خوف کر، مت غمگین ہو) نکل رہا ہے۔ چچا صاحب نے اس کے تیمار داروں سے فرمایا کہ اس سے دریافت کرو کہ یہ الفاظ کس وجہ سے کہہ رہی ہے؟ بڑی کوشش کے بعد بڑھیانے جواب دیا کہ ایک جماعت (فرشتوں کی آئی ہوئی ہے، اس کی زبان سے یہ الفاظ نکل رہے ہیں، جو میری زبان پر آگئے)۔ پھر آپ نے دریافت کیا کہ کیا تو ان الفاظ کا مطلب سمجھ رہی ہے؟ تو بڑھیانے کہا کہ مجھے تو صرف اتنا محسوس ہورہا ہے کہ یہ جماعت مجھے تسلی دے رہی ہے۔ پھر چچا صاحب نے فرمایا کہ اس سے دریافت کرو کہ کس عمل کی وجہ سے یہ تسلی دی جارہی ہے؟ بڑھیا نے کچھ دیر بعد کہا کہ یہ حضرات کہہ رہے ہیں کہ تیرے پاس اور اعمالِ خیر تو نہیں، البتہ ایک دن تو موسمِ گرما میں گھی لینے کے لیے بازار گئی تھی، جب تونے گھی لاکر گھر میں پگھلا دیا، تو اس میں سے ایک روپیہ نکلا، اول تونے چاہا کہ اس روپے کو چپکے سے اپنے پاس رکھ لے اور اپنے کام لائے اس لیے کہ کسی کو اس راز کی خبر نہ تھی، پھر تو نے یہ خیال کیا کہ حق تعالیٰ تو دیکھ رہا ہے۔ پھر تونے یہ روپیہ دکان دار کو لوٹا دیا۔ تیرا یہ عمل اللہ تعالیٰ کو پسند ہوا، اس کی وجہ سے ہم تجھ کو بشارت دے رہے ہیں۔

………………………………………………….

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com پر ای میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔