سوات کے لوگ، نسل و نسب

سوات کے باشندوں کی اکثریت یوسف زئی قبیلہ کی اکوزئی شاخ سے ہے۔ یہاں آباد اس قبیلہ کی ذیلی شاخیں یہ ہیں: ر انی زئی، خان خیل، کوز سُلیزی، (اباخیل اور موسیٰ خیل) بابوزی اور برسُلیزی(متوڑیزی، عزی خیل اور جِنکی خیل) اوریہ لوگ دریا کے بائیں کنارے جنوب مغرب سے شمال مشرق کی طرف آباد ہیں۔ رانیزئی کے علاوہ ان سب کو اجتماعی طورپر بائیزئی کہا جاتا ہے۔ جب کہ دریا کے دائیں جانب آباد ذیلی قبیلوں کے نام یہ ہیں (شمال مشرق سے جنوب مغرب کی طرف) شامیزئی، سیبوجنی، نیک پی خیل، شموزئی، ادین زئی، ابازئی اور خدکزئی۔ ابازی اور خدکزئی کے علاوہ ان سب کو اجتماعی طورپر خوا زو زی کہا جاتا ہے۔ بونیر، غوربند، کانڑا ، پورن ، چکیسراور مارتونگ جوکہ ریاست میں شامل علاقے تھے، وہاں بھی آبادی کا بڑا حصہ یوسف زئی قبائل پر مشتمل ہے۔
سوات کوہستان کے باشندوں کی اکثریت توروالی اور گاؤری ہے۔ ریاست کی عمل داری میں آنے سے پہلے یہ لوگ آزادانہ زندگی گزارتے تھے۔ ان کے علاقہ پر سوات کے حکمران نے 1921ء سے1947ء تک مرحلہ وار قبضہ کیا۔ اس دوران یہ لوگ کبھی کبھار یاسین اور مستوج کے خوش وخت حکمران خاندان کو ایک برائے نام خراج ادا کرتے تھے، جب کہ اباسین کوہستان میں دریا کے دائیں جانب کے علاقہ میں آباد لوگوں کا شجرۂ نسب کچھ اور ہے اور انہیں اجتماعی طورپر کوہستانی کہا جاتا ہے۔
گوجربرادری ایک بڑی تعدادمیں ریاست کے ہر علاقہ میں آبادہے، لیکن اب انہوں نے اپنی پرانی خانہ بدوشی والی زندگی ترک کردی ہے اوریہ ہر گاؤں اور قصبہ میں پائے جاتے ہیں۔ زمینوں اور جائیداد کے مالک ہیں۔ زیادہ تر کا تعلق کاشتکاری سے ہے لیکن زندگی کے دیگر شعبوں میں بھی موجود ہیں۔ ان کی ایک شاخ اجڑ ابھی تک خانہ بدوش ہیں۔
ہندو اور سکھ برادری کے لوگ بھی نسلوں سے ریاست میں آباد ہیں۔ ان کی اکثریت دکان دار ہے۔ یہاں کی مسلمان آبادی کے ان سے اچھے مراسم ہیں۔
سواتی پختون (جو یوسف زئی قبیلے سے پہلے اس علاقہ کے والی وارث ہوا کرتے تھے) اور دیگر پختون قبیلوں سے تعلق رکھنے والے، جیسے خٹک اور ترکلانڑی بھی خال خال یہاں ملتے ہیں۔
مذہبی طبقات اُن مذہبی شخصیات کی اولاد ہیں، جنہوں نے اپنے قول و عمل اور نیک نامی کی وجہ سے لوگوں کا احترام اور عقیدت حاصل کی۔ انہیں سید، میاں اور صاحبزادہ کہا جاتا ہے۔ یہ مذہبی پیشوں سے شاذ و نادر ہی منسلک ہوتے ہیں۔ البتہ وہ ارضی قطعات جنہیں سیریٔ کہا جاتا ہے، کے مالک ہیں اور اپنی مذہبی حیثیت سے کئی طرح کافائدہ اٹھاتے ہیں۔ اسی طرح ملاؤں کا تعلق بھی مذہبی طبقہ سے ہے۔ وہ یا تو خود مذہبی عہدوں پر متمکن ہوتے ہیں یا اُن کے باپ دادا ان عہدوں پر فائز رہے ہوں گے۔ وہ بھی مختلف طریقوں سے اپنی مذہبی حیثیت سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔
وادی پوری طرح سے آباد ہے۔ 1901ء میں سوات کوہستان کی آبادی بیس ہزار تھی جب کہ سوات بالا اور زیریں کی آباد ی ڈیڑھ لاکھ تھی (اس میں وادی سے باہر کے وہ علاقے شامل نہیں جو ریاست کا حصہ بن گئے تھے لیکن وادی سے باہر واقع تھے)۔ 1972ء کی مردم شماری کے مطابق ضلع سوات یعنی ریاستِ سوات کے سب علاقوں کی آبادی 935,444 ہوگئی تھی۔
لوگوں کی بڑی اکثریت یوسف زئی لہجہ والی پشتو بولتی ہے۔ پہاڑی علاقوں میں آباد گوجر آپس میں اپنی زبان گوجری بولتے ہیں، لیکن انہیں پشتو بھی آتی ہے۔ کوہستان کے گاؤری اور توروالی اپنی زبان بولتے ہیں جسے کوہستانی کہا جاتا ہے۔ جب کہ اباسین کوہستان کے باشندے اس زبان کا ایک اورلہجہ بولتے ہیں۔ (کتاب ریاستِ سوات از ڈاکٹر سلطانِ روم، مترجم احمد فواد، ناشر شعیب سنز پبلشرز، پہلی اشاعت، صفحہ اکتیس، بتیس اور تینتیس سے انتخاب)