25 جولائی 2018ء کے عام انتخابات کے متنازعہ نتائج نے بہ ظاہر پی ٹی آئی کے علاوہ تمام سیاسی جماعتوں میں تشویش کی لہر دوڑا دی ہے۔ متحدہ مجلس عمل اور ن لیگ کی طرف سے بلائی گئی آل پارٹیز کانفرنس (اے پی سی) میں انتخابی نتائج کو مسترد کردیا گیا ہے۔ اسلام آباد میں سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں کے ہمراہ مشترکہ پریس کانفرنس میں مولانا فضل الرحمان نے واضح کیا کہ عوام کے مینڈیٹ پر ڈاکا ڈالا گیا ہے۔ مولانا نے کہا کہ اے پی سی میں شریک تمام جماعتوں نے دوبارہ شفاف انتخابات کے انعقاد پر اتفاق کیا ہے اور اس مقصد کے حصول کے لیے ہم تحریک چلائیں گے۔
موجودہ عام انتخابات میں یقینا کسی نہ کسی حد تک دھاندلی ضرور ہوچکی ہوگی جس کا خدشہ انتخابات سے قبل بھی ظاہر کیا جا رہا تھا لیکن ایسا بھی نہیں ہے کہ پورے انتخابی عمل کو مسترد کردیا جائے۔ ملک بھر میں عمران خان کے چاہنے والوں کی کوئی کمی نہیں۔ یہ بھی درست ہے کہ تحریک انصاف نے ملک میں دشنام اور الزام تراشیوں پر مشتمل سیاسی کلچر متعارف کرایا ہے۔ خود عمران خان کا مجموعی طرزِ سیاست بھی مستحسن نہیں۔ وہ حصولِ اقتدار کے لیے خود اپنے نظریات اور آدرشوں سے انحراف کرتے رہے ہیں۔ ان کے بارے میں یہ تصور عام ہے کہ وہ وزارتِ عظمیٰ کے بلند منصب تک پہنچنے کے لیے اسٹیبلشمنٹ کی سیڑھیاں بھی استعمال کرتے رہے ہیں، لیکن ایسا بھی نہیں کہ وہ عوام میں سرے سے مقبول ہی نہیں۔
اے پی سی میں سیاسی جماعتوں کے سربراہوں اور ان کے ہم نواؤں کے اجتماع میں سب کے چہرے لٹکے ہوئے اور پژمردہ نظر آ رہے تھے۔ یہ سب وہی سیاست دان ہیں جنھیں بار بار اقتدار کی غلام گردشوں میں فروکش ہونے کے مواقع ملتے رہے ہیں لیکن ان میں سے کسی نے بھی حقیقی جمہوری اقدار کی طرح نہیں ڈالی ہے۔ انھوں نے کبھی بھی عوام کی مشکلات ختم کرنے اور ملک کے مسائل حل کرنے کے لیے یک جا ہونے کی سعی نہیں کی ہے۔ ان کے ہر اِکٹھ کے پیچھے ان کے ذاتی سیاسی مفادات اور اپنی مراعات کے لیے اسمبلیوں میں بل منظور کرانے کی خواہش کارفرما رہی ہے۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے کرتا دھرتا کئی عشروں تک اقتدار کے سنگھاسن پر براجمان رہے ہیں لیکن وہ اقتدار کی طاقت کو اپنی ذاتی اغراض و مقاصد کے لیے استعمال کرتے رہے ہیں۔ ملک و قوم کی ترقی ان کے پیشِ نظر نہیں رہی ہے۔ ان کے طویل مدتِ اقتدار میں ملک کے مسائل بڑھتے ہی رہے ہیں۔ ان میں کمی کبھی دیکھنے میں نہیں آئی ہے۔ یہی حالت پیپلز پارٹی کی رہی ہے۔ جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان ہر حکومت کے ساتھ جڑے رہے ہیں لیکن وہ قوم کو ذرا یہ بتائیں کہ انھوں نے اس دوران میں اسلام کی کوئی خدمت کی ہے؟ ملک و قوم کے مسائل حل کرنے میں کوئی نمایاں کردار ادا کیا ہے؟ اپنے رشتے داروں اور احباب کو اقتدار میں حصہ بقدرِ جثہ دلانے کے علاوہ ان کی ملک اور قوم کے لیے کیا خدمات ہیں؟ جماعتِ اسلامی کے سربراہ بھی اپنے گریبان میں ذرا جھانک کر دیکھ لیں۔ انھوں نے وطن عزیز کے لیے کون سے مفید کام کیے ہیں؟ انھوں نے ایم ایم اے کی سابق صوبائی حکومت میں بھی اقتدار کے مزے لوٹے ہیں اور تحریکِ انصاف کی گذشتہ صوبائی حکومت میں بھی انھیں اقتدار میں حصہ ملا ہے، لیکن وہ یہ بتائیں کہ صوبائی یا قومی مسائل کے حل میں انھوں نے کون سا غیر معمولی کارنامہ انجام دیا ہے؟ عوامی نیشنل پارٹی کے سربراہ اسفندیار ولی خان، قومی وطن پارٹی کے سربراہ آفتاب احمد خان شیرپاؤ اور پختون خوا ملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی نے ہمیشہ پختونوں کے حقوق پر سیاست کی ہے، لیکن ان کے سیاہ نامۂ اعمال میں پختونوں کے امن و تحفظ اور ترقی و خوشحالی کے لیے روشنی کی کوئی معمولی سی کرن بھی نظر نہیں آ رہی ہے۔ پختون، سابق فوجی آمر جنرل پرویز مشرف کے دور سے بدترین دہشت گردی اور ریاستی جبر کا شکار چلے آ رہے ہیں لیکن ان میں سے کس نے مظلوم پختونوں کے لیے مؤثر آواز بلند کی ہے؟ ان سے بہتر تو پختون تحفظ موومنٹ کے منظور پشتین ہیں جنھوں نے اپنی کم سِنی کے باوجود جرأت اور بالغ نظری کا مظاہرہ کیا ہے۔ انھوں نے پہلی دفعہ پختونوں پر دہشت گردی مسلط کرنے والی ریاستی قوت کا کھلم کھلا نام لیا اور اس کے مظالم کی مذمت کی۔ ایم کیو ایم ایک طویل عرصہ تک کراچی میں دہشت و وحشت کی سیاست کرتی رہی ہے۔ آج اگر ان کی پُرتشدد سیاست اپنے انجام کو پہنچ رہی ہے، تو ان کے رہنما بھی اے پی سی میں سر اٹھائے غمزدہ نظر آ رہے ہیں۔
ان تمام روایتی سیاسی جماعتوں اور اقتدار اور ذاتی مفادات کے خوگر سیاست دانوں نے اس ملک و قوم کو بڑی بے دردی سے لوٹا ہے۔ اس جدید دور میں بھی انھوں نے قوم و ملک کے بنیادی مسائل حل نہیں کیے ہیں۔ آج بھی عوام بجلی اور گیس کی لوڈشیڈنگ کا شکار ہیں۔ انھیں ہسپتالوں میں خوار و زبوں ہونا پڑتا ہے۔ ان کے بچوں کے لیے معیاری تعلیمی سہولتیں عنقا ہیں۔ صاف پانی کا مسئلہ بڑے شہروں میں بھی حل طلب ہے اور دور دراز کے مقامات میں عوام اور جانور ایک ہی تالاب سے پانی پیتے نظر آتے ہیں۔ عدالتی نظام قرونِ وسطیٰ کا منظر پیش کر رہا ہے۔ بے روزگاری اور غربت نے عوامی زندگی میں غیرمعمولی تلخیاں گھول دی ہیں۔ پولیس مظلوم کا ساتھ دینے کی بجائے مجرموں کی پشت پناہی کرتی ہے۔ ملک کا کوئی بھی شعبہ عوامی فلاح و بہبود کا مظہر دکھائی نہیں دیتا۔ ایسے میں اگر عوام نے پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان پر اعتماد کا اظہار کیا ہے، تو پاکستانی سیاست کے قبضہ گروپوں نے اجتماعی طور پر واویلا مچانا شروع کردیا ہے۔
عمران خان بھی کوئی فرشتہ نہیں ہیں۔ ملک کے سنجیدہ حلقے ان کی سیاست اور مجموعی طرزِ عمل سے اختلاف کرتے رہے ہیں اور بجا کرتے رہے ہیں لیکن انھوں نے عوام کو جو سنہرے خواب دکھائے ہیں، انھوں نے نئے پاکستان کا جو نقشہ کھینچا ہے، اس نے عوام کو ان کی طرف مائل کردیا ہے۔ بلاشبہ وہ بدعنوان نہیں ہیں، فلاحی کاموں نے انھیں مقبولِ عام بنایا ہے۔ کرکٹ نے ان کو عالمی سطح پر شہرت دی ہے۔ عمران خان کو ان لوگوں نے بھی ووٹ دیا ہے جو ان کی سیاست کو ناپسند کرتے ہیں لیکن ان کے مقابلے میں تین تین بار حکومت کرنے والی سیاسی جماعتیں کرپشن، اقربا پروری، نااہلی اور خراب حکومت کی ایسی بدترین مثالیں قائم کرچکی ہیں کہ طبیعت ان کی طرف قطعاً مائل نہیں ہوتی۔ عوام کے پاس عمران خان کے علاوہ اور کوئی آپشن ہی نہیں تھا۔
پی ٹی آئی نے خیبر پختون خوا میں اچھی حکومت کی کوئی مثال قائم نہیں کی ہے۔ ان کی حکومت کئی حوالوں سے ایک ناکام حکومت تھی لیکن ان کے پاس اپنی نااہلی اور ناکامی چھپانے کے لیے بنا بنایا بہانہ یہ تھا کہ وفاقی حکومت ان کے راستے میں رکاوٹیں ڈال رہی ہے، لیکن اب ان کا یہ بہانہ باقی نہیں رہے گا۔ وہ یہ بھی نہیں کہ سکیں گے کہ انھیں سابق صوبائی حکومت سے مسائل ورثے میں ملے ہیں۔ اب پی ٹی آئی کی خیبر پختون خوا کی صوبائی اور وفاقی حکومت میں کڑی آزمائش کا آغاز ہوگا اور اگر وہ صوبۂ پنجاب میں بھی حکومت بنانے میں کامیاب ہوگئی، تو عوام اس سے شہباز شریف سے زیادہ ترقیاتی کاموں کی توقع رکھیں گے۔
ملک کی تمام سیاسی جماعتیں حالیہ عام انتخابات میں دھاندلی کے خلاف مناسب انداز میں احتجاج ضرور ریکارڈ کرائیں۔ انتخابات میں اسٹیبلشمنٹ کے کردار کو ضرور ہدفِ تنقید بنائیں لیکن پی ٹی آئی کو حکومت کرنے کا موقع ضرور دیں، تاکہ جو لوگ عمران خان کو دیوانہ وار چاہتے ہیں، انھیں عمران خان کا اصل چہرہ نظر آسکے۔ اگر وہ اپنے وعدوں اور دعوؤں کے برعکس ثابت ہوگئے، تو وہ عوام کی نظروں میں ہمیشہ کے لیے اپنی وقعت کھو دیں گے اور اگر عمران خان واقعتا نئے ویلفیئر پاکستان کی بنیاد ڈالنے میں کامیاب ہوگئے، تو ان کے مخالفین بھی اپنے رویہ پر نظرِ ثانی کریں گے۔ حزب اختلاف کی جماعتیں جمہوری اقدار کو فروغ دیتے ہوئے اسمبلیوں کے فلور پر پی ٹی آئی کی پالیسیوں پر نظر رکھیں۔ جہاں کہیں انھیں حکومتی پالیسیاں ملک و قوم کے مفادات سے متصادم نظر آئیں، ان کی مزاحمت کریں اور جو پالیسیاں نئے پاکستان کے حق میں بہتر ہوں، ان میں حکومت کا ساتھ دیں۔ 1977ء کی تاریخ نہ دہرائیں۔ آج پاکستان میں جو دہشت گردی اور اجتماعی اَبتری نظر آ رہی ہے، یہ سب اسی تحریکِ نظامِ مصطفی کا نتیجہ ہے۔ جمہوری عمل کو بہر صورت جاری رہنے دیا جائے۔ تمام سیاستدان ذاتی سیاسی مفادات سے بالاتر ہوکر ملک و قوم کے مسائل حل کرنے میں قدم سے قدم ملائیں اورایسی کوئی غلطی نہ کریں جس کے نتیجے میں ملک ایک بار پھر بہت پیچھے چلا جائے۔
…………………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com پر ای میل کر دیجیے ۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔