جنگِ افیون

جنگِ افیون (Opium War) دراصل دو تجارتی جنگوں کا نام ہے جو 19ویں صدی عیسوی کے وسط میں مغربی طاقتوں اور چین کے درمیان لڑی گئیں۔ پہلی جنگِ افیون 1839ء تا 1842ء کے دوران میں لڑی گئی، جو کہ برطانیہ اور چین کے درمیان تھی۔
19ویں صدی کے آغاز پر برطانوی تاجروں نے چین سے غیر قانونی طور پر افیون (Opium) کی درآمد شروع کر دی۔ برطانیہ کی دیرینہ خواہش تھی کہ حکومتِ چین غیر ملکی تجارت سے پابندیاں اٹھالے۔ 1839ء میں جب چین کی شاہی حکومت نے افیون کی تجارت پر پابندی لگائی اور کینٹن (Canton) میں برطانوی سوداگروں کے ذخیرے کو تباہ کر دیا، تو برطانیہ کو جنگ کا بہانہ مل گیا۔ دونوں فریقوں کے درمیان کشیدگی اس وقت بڑھی، جب چند دن بعد کچھ شرابی اور غنڈہ برطانوی جہاز رانوں نے کچھ چینی دیہاتی قتل کردیے۔ ان شرابی گوروں کو گرفتار کر لیا گیا اور چین کی شاہی حکومت نے ان پر مقدمہ چلایا۔ برطانوی حکومت، چین کے قانونی نظام کو ماننے پر تیار نہ تھی، چناں چہ برطانیہ نے چینی عدالتوں کے اس الزام کو مسترد کر دیا۔ اس کشیدگی کے بعد چین اور برطانیہ کے درمیان چھوٹی جنگ ہوئی اور مختلف برطانوی فوجوں نے جل ہی فتوحات حاصل کرلیں۔ چناں چہ 29اگست 1842ء کو ’’معاہدۂ نانکنگ‘‘ ہوا۔ جس کے مطابق کینٹن، شنگھائی، ایمائے، فوچو اور ننگ پو کی بندرگاہیں برطانوی تجارت کے لیے کھل گئیں اور پھر ہانگ کانگ پر برطانیہ کا قبضہ ہوگیا۔
ایک اور جنگِ افیون برطانیہ اور فرانس نے مل کر چین کے خلاف کی۔ یہ دوسری جنگِ افیون 1856ء تا 1860ء کے دوران میں لڑی گئی۔ اسے "Arrow War” کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔ 1856ء میں برطانیہ نے چین کے اندر بڑے پیمانے پر تجاتی حقوق حاصل کرلیے۔ اس جنگ میں فرانس برطانیہ کے ساتھ مل گیا۔ کیوں کہ اس نے یہ بہانہ تراش لیا کہ اندرونِ چین میں اس کے کچھ ’’فریخ‘‘ مشنریوں کو قتل کیا گیا ہے۔ ان دونوں اتحادیوں نے 1857ء کے آخر میں ملٹری آپریشن شروع کیا اور جلد ہی بزروِ طاقت چین کو مختلف معاہدے کرنے پر مجبور کیا۔
پہلا معاہدہ 1858ء میں ہوا جو ’’معاہدۂ ٹائن جن‘‘ (Tientsin) کہلاتا ہے۔ اس میں دارالحکومت پیکنگ میں بیرونی سفیروں کو رہائش فراہم کرنا شامل تھا۔ اس کے علاوہ مغربی تجارت کے لیے کئی نئی بندرگاہیں بھی قائم ہوئیں اور ’’منچوریا‘‘ تک مزید متعدد بندرگاہیں کھول دی گئیں۔ چین کے اندرونی علاقوں میں یورپیوں کے لیے سفر کی سہولیات حاصل کی گئیں۔ اس کے علاوہ چین کو مجبور کیا گیا کہ وہ عیسائی مشنریوں کو چین میں آزادانہ طور پر کام کرنے دے۔ اسی سال کے آخر میں شنگھائی میں مذاکرات ہوئے جس کے تحت افیون کی تجارت کو قانونی حیثیت مل گئی۔ اس کے باوجود چینیوں نے ان معاہدوں کی تصدیق کرنے سے انکار کردیا جس سے کشیدگی دوبارہ شروع ہوگئی۔ برطانویوں نے دارالحکومت پیکنگ کا محاصرہ کرلیا اور شہنشاہ کا محل جلا کر تباہ کردیا۔ 1860ء میں چین نے پیکنگ کنونشن پر دستخط کئے جس کے تحت انہوں نے ’’معاہدۂ ٹائن جن‘‘ کی پاسداری کرنے کا وعدہ کیا۔ ۔ (“عالمی جنگوں کا انسائیکلو پیڈیا” از عبدالوحید ناشر نگارشات پبلشرز، صفحہ نمبر 06-105 سے ماخوذ)