حصولِ آزادی سے پہلے سندھ میں ثانوی اور اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے ذرائع بہت ہی محدود تھے۔ 1947ء کے بعد جیسے جیسے یونیورسٹیوں، کالجوں اور سکولوں میں اضافہ ہوا مردوں کے دوش بدوش اعلیٰ تعلیم یافتہ خواتین کی تعداد بھی بڑھنے لگی اور اس خوشگوار تبدیلی کا یہ اثر ہوا کہ سندھی زبان و ادب کے فروغ میں بیگم عبداللہ چنہ کے علاوہ ثمیرہ زریں، ماہتاب محبوب، شمس صدیقی، جمیلہ نرگس، سعیدہ سومرو، بادام ناتواں، ثریا یاسمیں، نورالہدیٰ شاہ، رشیدہ حجاب، قمر واحد، خیرالنسا جعفری، زیڈاے شیخ، فہمیدہ حسین، رضیہ کھوکھر، فہمیدہ بلوچ اور خدیجہ شیخ جیسی باصلاحیت افسانہ نگاروں نے سندھی افسانے کے جدید رجحانات و میلانات کے مطابق بڑی خوبصورت کہانیاں لکھی ہیں۔
عہدِ حاضر کے سندھی افسانے پر تبصرہ کرتے ہوئے ڈاکٹر غلام علی الانا لکھتے ہیں: ’’اس دور کے افسانوں میں نئے ماحول کا عکس ملتا ہے۔ باشعور افسانہ نگاروں نے اپنے قلم کی قوت سے اس خطے کے عوام میں ذہنی انقلاب پیدا کیا اورنئے افسانوں کو صحیح معنوں میں سماجی حقیقتوں اور زندگی کے نئے تقاضوں کو اپنانے کا شعور ملا۔ بڑی بات یہ ہے کہ اس دور کے مختصر افسانوں میں سندھی ماحول سے مطابقت رکھتی ہوئی زندگی اپنی تمام تر رعنائیوں کے ساتھ ابھرتی ہے۔ ان افسانوں کے مطالعہ سے اس خطے کی اہم خصوصیات اور سیاسی، تاریخی، قومی، سماجی اور اقتصادی تہہ داریوں کو سمجھتے میں کافی مدد ملتی ہے۔ اس کے علاوہ فنی نقطۂ نظر سے بھی یہ افسانے زیادہ کامیاب ثابت ہوئے ہیں۔‘‘
مرحب قاسمی لکھتی ہیں: ’’سندھی افسانہ نگار خواتین نے اپنے اعلیٰ و ارفع قسم کے بصری تخیل اور تصور کی مدد سے اپنے ماحول، طرزِ معاشرت، تہذیبی و ثقافتی اقدار، یہاں کے کرداروں کے نفسیاتی و معاشرتی ماحول اور پیکرِ سندھ کی مکمل تصویریں صفحہ قرطاس پر کھینچی ہیں۔ ان خواتین افسانہ نگاروں کی تحریروں میں کردار کے پس منظر میں موجود روایتی ماحول کی تمام تر جزئیات کا عکس موجود ہے۔ اس میں سے زیادہ تر خواتین نے اپنی تخلیقی کاوشوں کی فنی تشکیل کے لیے اپنے لوک اور کلاسیکی ادب سے استفادہ کیا ہے۔ اپنی دھرتی، اپنے لوگ، تمام علامتیں، جزئیات، محرکات، محاورے، الفاظ، مناظر، ماحول کے پروردہ لوگوں کے دُکھ سکھ، رسم و رواج، مخصوص کیفیات و واردات، سماجی، نفسیاتی، طبعی لوگ اور ان کے مسائل، یہی سب ان خواتین کے محرکات ادبی کا محور ہیں اور سچ تو یہ ہے کہ افسانہ نگار اسی وقت افسانہ نگار کہلاتا ہے جب وہ اپنے بھیدوں سے زیادہ قاری کے بھیدوں کو اور اس دنیا کے بھیدوں کو جس میں قاری رہتا بستا اور زندگی بسر کرتا ہے جانتا ہو۔‘‘
سندھی افسانہ نگار خواتین کے حوالے سے ہم آزادی کے بعد کے دور کو دو حصوں میں بانٹ سکتے ہیں۔ ایک 1947ء سے لے کر 1969ء تک اور دوسرا 1970ء سے لے کر آج تک۔ 1947ء کے بعد مجموعی طور پر سندھی ادب جمود کا شکار رہا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ادبی دنیا سے تعلق رکھنے والے زیادہ تر ہندو تھے جو یہاں سے کوچ کر گئے۔ ہندو افسانہ نگار خواتین جن میں سندری اتم چندانی گلی سدازنگانی، تارا میر چندانی، کلاپرکاش اور پوپٹی ہیرا نندانی وغیرہ مشہور تھیں، اسی دور سے تعلق رکھتی ہیں۔ مگر زینت عبداللہ چنہ، سندھ کی پہلی مسلمان افسانہ نگار خاتون ہیں، جنھوں نے سندھی خواتین کو لکھنے پر اُکسایا جن میں رشیدہ حجاب، ثمیرہ زریں، ماہتاب محبوب، زرینہ بلوچ، شمس نورالدین کی روشن آرا مغل، ثریا یاسمین جمیلہ تبسم، جمیلہ نرگس، مس حماٹی، ذکیہ دریشیائی، مس اقبال شیخ، مس اقبال پروین سومرو، ارشاد قمر، بلقیس سید، ممتاز عاربی، نظیر بھٹو، نصرت چنہ، آفتاب بانو عباسی، صحرا مارئی عالم، فریدہ مغل، ایس تبسم وغیرہ کے نام نمایاں ہیں۔ ان افسانہ نگار خواتین کی تحریریں زیادہ عورت کی مظلومیت، امارت و غربت کی تفاوت ویہاتی پس منظر میں موجود مجبور لوگوں کے دُکھ سکھ اور مخصوص تہذیب و ثقافت کی عکاس ہیں۔ کردار، مکالمے، ماحول کی جزئیات، روایتیں اور روایتوں کو برتنے کے انداز، سبھی اسی معاشرے سے لیے گئے ہیں اور وہ سب نشانیاں مثلاً عورتوں کے زیورات، رسمیں، گھریلو ماحول اور استعمال کی اشیا ان کے لباس اور اندازِ گفتگو وہ سب اس دور میں افسانوں میں کہیں کہیں خارجی ماحول اور عورت کے داخلی خیالات کا اظہار بھی پایا جاتا ہے اورافسانوی کینوس کچھ زیادہ وسیع ہو گیا۔
ان افسانوں کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ ان کو اپنی اوریجنل زبان سندھی میں لکھا گیا ہے لیکن ان کی اپیل آفاقی ہے۔ دنیا بھر میں جن ادیبوں نے اپنی زبان کی ضرورت اور اہمیت کو محسوس کیا ہے، ان کا تخلیق کیا ہوا ادب بے حد قدر و قیمت کا حامل ثابت ہوا ہے۔ پاکستان میں سندھی زبان کی یہ خوش قسمتی ہے کہ اس کے بولنے والوں نے کس بدیسی زبان کو خود پر مسلط نہیں کیا اور اسی زبان کو ذریعۂ اظہار بنایا ہے جس میں وہ زندگی بسر کرتے ہیں اور سندھی زبان و ثقافت کے لیے ایک جارحانہ جنگ جاری رکھی ہے۔ سندھ میں سندھی لازمی ذریعۂ تعلیم ہے۔ سندھی اخبار و جرائد، سائن بورڈ، ریڈیو، ٹی وی پروگرام اور سرکاری خط و کتابت بھی سندھی زبان میں ہونے کا نتیجہ یہ ہے کہ سندھی زبان نے ارتقا کی بہت ساری منازل طے کر لی ہیں۔
یہ افسانے سندھی زبان کے نامور ادیبوں نے لکھے ہیں اور ایک خاص دور کے اقتصادی، سیاسی اور تاریخی واقعات کا احاطہ کرتے ہیں۔ اعلیٰ رموز و علائم، قابلِ تفہیم تشبیہات و استعارات اور کرافٹ کا منفرد انداز۔ ان افسانوں میں یکساں خوبی یہ بھی ہے کہ یہ ایک دور میں لکھے گئے ہیں لیکن انہیں ہر دور میں یکساں دلچسپی کے ساتھ پڑھا جائے گا۔
خواتین افسانہ نگاروں نے اپنی کہانیوں کے مجموعوں میں شامل افسانوں میں تلخ سماجی حقائق، معاشی ناہمواریوں، عوام کی غربت اور محنت کش طبقوں اور کسانوں کے ساتھ ہونے والی غیر انسانی زیادیتوں اور ان کے اثرات کو موضوع بنایا ہے اور زمینداروں کی جانب سے کیے جانے والے مظالم کی منظر کشی کی ہے۔ سندھ کے سماجی نشیب و فراز پر سیاسی بصیرت کے ساتھ تنقیدی نظر ڈالنے کا سلسلہ موجودہ صدی کی دوسری دہائی میں شروع ہوا جب ’’سندھی ساہتیہ سوسائٹی‘‘ کا قیام عمل میں آیا اور ایسی کتابیں منظر عام پر آنے لگیں جن میں اس دور کے ممتاز اہلِ قلم نے سندھی کہانیوں کو کافی حد تک عصری تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کی شعوری کوششیں جاری رکھیں۔ ان کہانیوں کے موضوعات میں سندھ کی معاشی پسماندگی، تاریخی واقعات، مذہبی روایات، سندھ کی تہذیبی و ثقافتی رنگارنگی، طبقاتی تقسیم اور ہندومسلم اتحاد پر زور دیا گیا ہے۔
سندھی خواتین میں قیام پاکستان سے پہلے تعلیم یافتہ شخصیات کی بہت کمی تھی، مگر پچھلے تیس چالیس برس میں نسبتاً اچھا خاصا اضافہ ہوا ہے۔ پڑھی لکھی سندھی خواتین کے فکر و شعور کی اب اپنی تہہ داریاں ہیں۔ علاوہ ازیں دورِ جدید کے رجحانات و میلانات کے اثرات بھی رنگ لائے ہیں۔ اس لیے جدید تعلیم یافتہ اور روشن خیال سندھی خواتین نے رجعت پسندانہ قدروں سے انحراف کی جانب تیزی سے قدم بڑھایا۔
اس میں شک نہیں کہ سندھی افسانہ نگاری کو نقطۂ عروج تک پہنچانے میں خواتین کا بہت ہی نمایاں حصہ ہے۔ ان کے مختصر افسانوں میں سندھی معاشرت، سندھی تہذیب و ثقافت اور موجودہ دور کی سیاسی و معاشی کشمکش کا انعکاس بڑی طرح داری سے فکر ونظر کی بیداری کا ثبوت دیتا ہے۔
بحیثیت مجموعی سندھی مختصر افسانہ فکری اور فنی اعتبار سے موجودہ دور میں جہاں ایک طرف جدیدیت کے رجحانات و میلانات سے ہمکنار ہونے کا حق ادا کر رہا ہے، وہاں دوسری جانب اپنی دھرتی، اپنے سماج اور اپنے اجتماعی مسائل سے بھی شعوری طور پر وہ اثرات قبول کر رہا ہے جو کسی ترقی یافتہ زبان کے ادب کو صرف کاغذی سطح پر زندہ نہیں رکھتے بلکہ دلوں میں گھر کر لیتے ہیں۔
اس معاشرے کے اور بھی بہت سے نمایاں پہلو ہیں جنھیں سندھ کی افسانہ نگار خواتین نے اپنے افسانوں میں اجاگر کیا ہے۔ مثلاً سکھ اور دکھ کے موقع پر اظہار کا طریقہ، شادی بیاہ کی رسمیں، مہندی وغیرہ یا ان موقعوں پر گائے جانے والے گیتوں اور ناچوں کے روایتی انداز۔ غرض یہ کہا جا سکتا ہے کہ زیادہ ترافسانہ نگار خواتین نے اپنی تحریروں میں ماحول اور طرزِ معاشرت کی بھرپور عکاسی کی ہے، لیکن ایک بات جو کبھی قاری کو کھل جاتی ہے وہ عورت ذات کی مظلومیت کا مسلسل پرچار ہے۔ کیا عورت اس خدا ترسی کے گھمبیر احساس سے باہر نہیں نکل سکتی۔ اس کے علاوہ ان پر بھی الزام عائد کیا جاتا ہے کہ ان کی سوچ بہت محدود اور موضوعات گنے چنے ہیں جب کہ ان کے مقابلے میں سندھی مرد افسانہ نگاروں کا کینوس خاصا وسیع ہے لیکن اس دور کی افسانہ نگار خواتین اپنے دائرہ عمل اور دائرہ فکر کو وسیع تر کرنے کی کوششوں میں مشغول ضرور ہیں۔
…………………………………………….
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔